درخت ہیں، تو ہم ہیں
بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور کلائمیٹ چینج کے نہایت واضح خطرات کے تحت، پاکستان میں اس وقت شجرکاری کی شدید ضرورت ہے تاکہ سبزے کا دائرہ وسیع کیا جاسکے۔ دوسری جانب غیرسرکاری تنظیمیں حسبِ استطاعت اپنا اپنا کردار ادا کررہی ہیں، تاہم اس میں بعض افراد ایسے ہیں جنہوں نے کسی ستائش و صلے سے بے نیاز ہوکر نہ صرف شجرکاری کو اپنا مشن بنایا ہے بلکہ وطن کو سبز پیرہن دینے میں اپنی ہر ممکن جستجو کررہے ہیں۔
ان میں سے ایک شخصیت خضرولی چشتی کی ہے، جنہوں نے اپنی جسمانی مشکلات اور حدود کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خود کو ’سبز ہیرو‘ ثابت کیا ہے۔
خضرولی چشتی کی عمر مشکل سے دو تین برس تھی کہ ان میں پولیو کا انکشاف ہوا اوران کی نقل وحرکت محدود ہوکر رہ گئی۔ انہوں نے تمام مشکلات کے باوجود اپنی تعلیم ایم ایس سی تک مکمل کی۔ یہاں تک کہ شجرکاری کے لیے اپنا لیپ ٹاپ تک فروخت کردیا تھا۔
خضر ولی کا ابتدائی بچپن یا تو ایک جگہ بیٹھے گزرا یا وہ دوڑتے بھاگتے اپنے ساتھیوں کو دیکھ کر چاروں ہاتھ پاؤں پر چلنے کی سعی کرتے رہے اور یہ سلسلہ دس برس کی عمر تک جاری رہا۔ اس دوران ان کے آنگن میں نیم کے درخت سے ان کی دوستی ہوئی کیونکہ دونوں ہی ایک جگہ رہنے پر مجبور تھے۔ ضلع پاک پتن کے گاؤں چشتیاں میں پیدا ہونے والے خضر ولی نے دیہات کے ماحول میں پودوں، پھولوں، تتلیوں اور پرندوں کو دیکھا اور انہیں محسوس کیا۔ یہاں انہیں اشجار سے خاص لگاؤ ہوگیا۔ پھر وہ بیساکھیوں کے سہارے چلنے لگے اور تدریس مکمل کی، یہاں تک کہ خواجہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کیا۔
جغرافیہ میں درختوں کی اہمیت، ماحولیات اور کلائمیٹ چینج سے تعارف پر انہوں نے 2014 میں پیڑ پودے لگانے شروع کیے۔ اپنے پیسوں سے خرید کر شجرکاری کے دوران بھی اس کی ابتدائی معلومات نہ تھیں اور تجربہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس طرح رقم، محنت اور وقت بھی ضائع ہوا کیونکہ زیادہ تر پودے مرجھا جاتے تھے۔
2017 میں خضرولی چشتی نے پاکستان میں ذاتی ملکیت میں پودوں کی فری نرسری قائم کی جو آج بھی لوگوں میں بیج، قلمیں اور نمویافتہ پودے تقسیم کرتی ہے۔ اس طرح ایک ٹرے میں مورینگا کے چھ پودوں سے شروع ہونے والے سفر پھلتا پھولتا رہا اور اب اس نرسری میں سالانہ 50 ہزار پودے تیار ہوسکتے ہیں۔ پودوں میں معیاری اور مقامی پودوں اور درختوں کو ہی اہمیت دی جاتی ہے۔
2020 میں خضرولی چشتی کی سالگرہ پر آسٹریلیا میں مقیم ان کے دوستوں نے ان کے نام پر میاواکی فاریسٹ لگایا جو ان کے لیے ایک اعزاز بھی ہے۔ اس کے بعد مزید ایوارڈز اور اعزازات ملے جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
2021 کے ماہِ اکتوبر میں خضرولی چشتی نے میلہ اشجار (ٹری فیسٹول) کا انعقاد کیا جس میں بچوں اور بڑوں کو باغبانی، کچن گارڈننگ، ماحولیات شعور، پودوں کی تقسیم اور دیگر امور سے آگاہی دی گئی۔ اگرچہ وہ اب تک ایک لاکھ سے زائد درخت لگا چکے ہیں لیکن ان کا ہدف ہے کہ جب تک زندگی وفا کرے وہ ایک کروڑ اشجار کا ہدف پورا کرسکیں۔
’میرا مشن ہے کہ 2023 میں 50 ہزار پودوں کی شجرکاری کروں۔ اس سال میں پاکستان کے 100 شہروں کا وزٹ کرکے پودے لگانے کا خواہشمند ہوں۔ اس میں لوگوں کو ماحولیاتی شعور دینے کے ساتھ ساتھ مزید 50 ہزار پودے لگانے کا بھی ارادرہ رکھتا ہوں‘ انہوں نے بتایا۔
خضرولی کو حوصلہ شکن رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، انہیں برے ناموں سے پکارا گیا اور کہا گیا کہ وہ زندگی میں کچھ نہیں کرسکتے۔ کسی نے ان کے والدین سے کہا کہ یہ تو اسپیشل بچہ ہے جسے درزی وغیرہ کا کام سکھانا ہی مفید ہوگا۔ لیکن بیساکھیوں پر ہونے کے باوجود اب تک وہ لاکھ سے زائد درخت اپنے پیروں پر کھڑے کرچکے ہیں۔ یہاں تک کہ دیگرنووارد رضاکار اب ان سے رہنمائی لیتے ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے اپنا پہلا میاواکی فاریسٹ بنایا ہے اور جلد ہی ایک ایکڑ پر میاواکی فاریسٹ اگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔