عوام کے کندھوں پر سیاسی بساط
’بال بلوڑے شے گِھدی ونجو‘‘ (بال بچوں چیز لے جاؤ)۔
بچپن میں یہ آواز سنتے تھے تو اسی جانب دوڑ لگا لیتے تھے جہاں سے یہ آواز آرہی ہوتی تھی۔ روایت تھی کہ مغرب ہونے سے پہلے محلے میں کوئی چینی والی روٹی تو کوئی ٹافیاں بانٹتا تھا، اسے باعث برکت سمجھا جاتا تھا۔
بڑے ہوئے تو آہستہ آہستہ یہ آوازیں مدھم ہوتی چلی گئیں لیکن بھلا ہو ہمارے سیاستدانوں کا، انہوں نے یہ روایت تاحال قائم رکھی ہوئی۔ اب بھی صدائیں آتی ہیں، کہیں ’نیا پاکستان‘ بنانے کی ٹافی بٹتی ہے تو کہیں بہترین انتظامی امور کے دعویدار چوپڑیاں بانٹتے دکھائی دیتے ہیں اور کچھ ’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ کے بتاشے بانٹ رہے ہیں۔ عوام میٹھا کھانے کے شوق میں ہجوم بنے اسی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں جہاں سے مٹھائی کھلائے جانے کا بلاوا آتا ہے۔
75 سال سے اقتدار کےلیے لڑتے مرتے عوامی نمائندوں کا ٹافیوں، بتاشوں کے لالچ میں عوام کو کچل کر ذاتی مفادات کی رسہ کشی کا کھیل جاری ہے۔ اس لالچ کو عوامی مفاد کا ٹیگ لگا کر بڑی ہوشیاری سے بیچا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان پچھہتر برسوں میں شطرنج کی بازی چاہے کوئی بھی جیتا ہو، کیا اس سے عوام کے مسائل کم ہوئے؟ بنیادی ضروریات، جس میں عزت سے دو وقت کی روٹی، سستی اور معیاری تعلیم، صحت کی بنیادی سہولتیں عوام تک پہنچائی گئیں؟ یقیناً جواب ہوگا نہیں۔ اور اس کی وجہ بھی مجبوری کے ریپر میں بوندی بنا کر اپنے اپنے ہجوم میں بانٹ دی جاتی ہے۔ کسی کو مدت پوری نہیں کرنے دی تو کسی کے دور حکومت میں پچھلی حکومتوں کی بری کارکردگی کے رونے دھونے ہی تمام نہ ہوئے اور کسی نے سارا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیا، حالانکہ لانے پر اسی اسٹیبلشمنٹ کے چرن بھی چومنے والے یہی تھے۔
عوام کے کندھوں پر شطرنج کی بساط سجانے والے اپنے اپنے کھیل میں مگن ہیں، نہ کسی کو احساس ہے کہ زرعی ملک میں آٹا نایاب ہوچکا ہے اور نہ کسی کو فکر ہے کہ آٹے دال کا بھاؤ کیا ہے۔ عوام کےلیے ہر گزرتا دن مشکل تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ کھیل اتنا مزیدار ہے کہ اس کے نشے میں مدہوش و مشغول کھلاڑی میرپورخاص کے گلشی کولہی کو بھی بھول گئے۔ وہی گلشی جو بچوں کی بھوک مٹانے سستا آٹا لینے گیا، جسے پانچ کلو آٹا تو مل گیا لیکن بدلے میں سانسیں چھین لی گئیں۔ بچے یتیم ہوگئے، لیکن کیا فرق پڑتا ہے۔ کھیل تو ابھی بھی جاری ہے۔ انا اور ضد کی آگ ہے جس میں آئے روز کوئی نہ کوئی اپنے حصے کا ایندھن جھونک رہا ہے۔
دو بڑے صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوگئیں، مرکز میں بغیر اپوزیشن کے ڈمی سیٹ اپ لگا دیا گیا ہے جہاں آئے روز وزیروں مشیروں کی بھرتیاں جاری ہیں۔ ایک طرف پی ڈی ایم دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مل بیٹھ کر سیاسی بحران کو حل کرنا چاہتی ہے مگر پاکستان تحریک انصاف تیار نہیں۔ اب جب پی ٹی آئی نے حامی بھری تو دس مہینوں سے اسپیکر کی دراز میں رکھے استعفے اچانک منظور کرلیے گئے اور ممبران کو فوری طور پر ڈی نوٹیفائی بھی کروا دیا گیا۔ نہ لفظوں کا مان رہا، نہ اپنے پارلیمانی عہدوں سے ایمانداری جیسا کوئی اصول دکھائی دیتا ہے۔
ایک طرف دوست ممالک سے امداد مانگی جارہی ہے اور دوسری طرف تحلیل کی گئی اسمبلیوں میں دوبارہ انتخابات کی بازگشت ہے۔ جبکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ انتخابات کےلیے وسائل ناگزیر ہوتے ہیں۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب معاشی حالات سازگار نہیں تو تین چار سو حلقوں میں انتخابات کرانے کےلیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ لیکن عوام کے سامنے خالی خزانے کا ماتم جاری ہے۔ اس غیر یقینی کی صورتحال نے معاشی ڈھانچے کی گلی سڑی ہڈیاں بھی توڑنی مروڑنی شروع کردی ہیں۔
اسٹاک ایکسچینج میں مندی ہی مندی ہے، ڈالر ہاتھ نہیں آرہا، سرمایہ دار بھاگنے پر تلا بیٹھا ہے، اسٹیٹ بینک میں پڑا پیسہ صفر گھٹا رہا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑ کر پردیس میں نوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں، برآمدات میں خسارہ ہی خسارہ ہے لیکن سیاسی کشیدگی میں اضافہ کرنے والے ٹس سے مس ہی نہیں ہورہے۔
دوسری جانب اسمبلیوں سے محروم صوبوں میں نگران سیٹ اپ کےلیے بھی ’’تو تو، میں میں‘‘ شروع ہے۔ سب کو اپنا بندہ لانا ہے، یہ دیکھے بنا کہ وہ وزرات اعلیٰ کےلیے اہل بھی ہے یا نہیں۔ کیونکہ دونوں جانب سے دیے گئے ناموں میں سے کوئی قانوناً، تو کوئی اخلاقاً ملزم ہے۔ جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو جماعت اقتدار میں ہوتی ہے وہ اداروں کو استعمال کرکے من پسند فیصلہ کروا ہی لیتی ہے اور اس معاملے میں بھی بال پارلیمانی کمیٹیوں کو پار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی ڈی میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان نے پہلے سے ہی الیکشن کمشن پر کرپٹ ادارے کا ٹیگ لگا رکھا ہے۔ یہاں بھی حالات بہتری کی جانب بڑھتے دکھائی نہیں دے رہے بلکہ تعیناتی کے بعد ایک بار پھر سے رولا رپا تیار۔
ہر طرف دھند ہی دھند ہے، کہیں سے کوئی ایسا راستہ نہیں دکھائی دے رہا جہاں چل کر اس بحران کو ختم کیا جائے۔ عام انتخابات کی طرف پی ڈی ایم جانے کو تیار نہیں حالانکہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج دیکھنے کے بعد اب یہ فیصلہ کسی حد تک بڑے اتحادی پیپلز پارٹی کےلیے قابل قبول بھی ہوسکتا ہے لیکن وہاں بھی رویہ سرد ہی ہے۔ کوئی ایک زیرک سیاستدان آگے بڑھ کر ان معاملات کو سلجھانے کو تیار نہیں، ہاں الجھانے میں سبھی اپنا اپنا حصہ ڈالنے کو بے تاب ہیں۔ ان تمام تنازعات میں ملک کس جانب جارہا ہے، عوام کی بدحالی کی کیا صورتحال ہے، ایک ایٹمی طاقت کا امیج کس حد تک منفی ہوئے جارہا ہے، اس کی نہ پروا ہے نہ احساس۔ مجبوراً ملک کی بقا اور عوام کی بہتری کے نعرے لگ رہے ہیں۔
ان نعروں پر عملدرآمد دیوانے کا خواب سہی مگر عوام پھر بھی اپنے اپنے اکابرین کے پیچھے آنکھیں موندے چل رہے ہیں۔ اپنے ووٹ کی طاقت کو سیاستدانوں کے بیانیوں پر نچھاور کرکے انہیں بدمست ہاتھی بنانے میں ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ تبھی تو چال چلنے والے اپنی اپنی بازیاں لپیٹ اور باریاں سمیٹ رہے ہیں۔ قوم کے خادم قوم کے حاکم بنے بیٹھے ہیں اور ہم تماش بین جی حضوری میں مگن۔ لیکن ہم ہوتے کون ہیں اپنی مرضی سے اپنے خادم چننے والے؟ کہنے کو یہاں جمہوریت ہے لیکن درحقیقت یہ لڈو بھی حکومتیں بنانے اور گرانے والوں کے ’’مقدس سنہری ورق‘‘ میں مقید ہے جس کے قریب بھی ہمیں پھٹکنے کی اجازت نہیں۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں کھلی دھاندلیوں کے مناظر نے بھی رہی سہی خوش فہمی دور کردی کہ نمائندے کے نام پر ٹھپہ عوام لگاتے ہیں۔ یہاں ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ والا قانون ہی نافذ ہے۔ پھر یہ تماشا کیسا؟ یہ بحران کیونکر؟ ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دے کر یہ وطن حاصل کیا اور ہمیں اس یقین پر سونپا تھا کہ ہم اس کی رکھوالی کریں گے، اسے عزت و استحکام بخشیں گے۔ مگر یہ کیا، ہم تو خود سہولت کار بنے اسے کمزور کرنے والوں کے بیانیوں پر لبیک کہتے شعور کو شکست اور جنون کو جیت کا معیار بنا رہے ہیں۔
عوام کے جذبات، جنون اور لاشعور پر سجی بساط پر شطرنج کا کھیل جاری ہے۔ یہ کھیل دماغ کا ہے اور کھیلنے والے بادشاہ کو شہ مات دینے کےلیے گھیریں گے، لپیٹیں گے اور خوب دھکیلیں گے۔ ہار بھی گئے تو جیت کھلاڑی کی اور نقصان صرف اور صرف اس اناڑی کا مقدر ہوگا جس نے اقتدار کا یہ کھیل کھیلنے کےلیے شاطر کھلاڑیوں کےلیے اپنا کندھا جھکایا۔ پھر نہ ٹافیاں ملیں گی اور نہ ہی میٹھے بتاشے، جن کی حرص پچھہتر سال سے زندہ باد کے نعرے لگوا رہی ہے۔