مساجد میں چوری کی وارداتیں؛ وجہ کیا ہے؟
ہمارے گھر کے قریب تین جامع مساجد ہیں۔ سوئی گیس آفس کے پاس طلحہ مسجد، منگل مارکیٹ میں غوثیہ مسجد اور جاوا چوک میں علی المرتضیٰ مسجد ہے۔ تینوں مساجد میں چپل چوری کی وارداتوں کے علاوہ دیگر انتہائی سطح کی وارداتوں کی اطلاع بھی گاہے بگاہے ملتی رہتی ہے۔ گزشتہ ہفتے دو بار چپل چوری کی کارروائی بذات خود ہمارے ساتھ ہوئی۔
کل ظہر کے بعد جب باہر نکلا تو مسجد کے خادم صاحب کسی سے انتہائی سنجیدہ لہجے میں گفتگو فرما رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ رات کو مسجد کا ہیٹر چوری ہوگیا۔ خادم مسجد انتہائی لاچاری میں کہنے لگے دیکھیں اب ہم کیا کریں، ہمارا کام نمازیوں کےلیے سہولیات کا خیال رکھنا، رات کو بروقت مسجد کے دروازوں کو لاک کرنا ہے، لیکن پھر بھی کسی نے کارروائی کر ڈالی۔ چونکہ بات مساجد سے متعلق ہے تو انہوں نے مزید ایک خبر سنائی کہ یہاں تو رات کو کارروائی کی گئی لیکن غوثیہ مسجد میں دن دیہاڑے ساؤنڈ سسٹم غائب ہوگیا۔ طلحہ مسجد نہ صرف ایک جامع مسجد ہے بلکہ یہاں ملک کے دور دراز علاقوں سے علم کے پیاسوں کو سیراب کیے جانے کی شب و روز سعی کی جاتی ہے، وہاں مسجد کے اندر سے چوری ہونا (جوتوں کے علاوہ) ممکن نہیں، کیوں کہ ہر لمحہ طلبا و علما کی آمدورفت رہتی ہے، لیکن مسجد سے باہر چیزیں پھر بھی خطرے سے دوچار ہیں، خاص کر چندے کے ڈبے، جو کئی مرتبہ وارداتوں کا سامنا کرچکے ہیں۔
اس ساری صورت حال کو جب انسان دیکھتا ہے تو لامحالہ ایک سوال دماغ کے گوشوں سے انگڑائی لیتا ہے، مجھے قوی امید ہے کہ عوامی حلقوں میں بھی ایسے واقعات کے بعد اس قسم کے سوالات کی گونج ہوگی کہ ان لوگوں کو خدا کا خوف بھی نہیں آتا کہ وہ اللہ کے گھر سے چوری کرتے ہیں؟ یعنی چوری کی وجہ صرف خدا کے خوف کے نہ ہونے کو قرار دیا جاتا ہے۔
یہ ایک بنیادی سوال ہے، اور یقیناً اگر ہمیں سردی کے موسم میں گرم بستر مہیا ہو، ہمارے بچوں کو موسم کے لحاظ سے تمام سہولیات میسر ہوں، تین یا کم از کم دو وقت کا کھانا بڑی آسانی سے مل رہا ہے، ہمارے بچوں کےلیے روزمرہ کی ضروریات پوری ہورہی ہوں، ہمارے چولہے گرم ہوں، ہماری رہائش اچھی ہو، ہمیں کل کی فکر نہ ہو کہ آنے والے کل کا کہاں سے، کیسے بندوبست ہوگا؟ تو ہم بیٹھ کر آرام سے دیگر مقامات کے علاوہ خاص کر مساجد میں چوری کی وارداتوں سے متعلق یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا خوف ختم ہوگیا ہے۔
لیکن اس سے پہلے کہ ہم بات کو اس کی آخری حد یعنی خوف خدا کی کمی سے شروع کریں، ایک لمحہ رکیے، اور سوچیے کہ ایک شخص اگر اس انتہائی قدم تک گیا ہے تو آخر کس وجہ سے گیا ہوگا؟ کیا واقعی وہ اس قدر بے خوف اور جرّی ہوگیا ہے کہ اس کا دل مہر زدہ ہوگیا ہے، اس سے خدا کا خوف نکل گیا، اور نتیجتاً وہ مساجد کی اشیا چوری کر رہا ہے یا معاملہ کوئی اور ہے؟
چوری کرنا یقیناً ایک جرم ہے۔ چوری کی مخصوص حد جس کی سزا ہاتھ کاٹنا تھی، ملکی صورت حال کے پیش نظر اس کی سزا کیا ہوگی، یہ علمائے وقت ہی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جب قحط آیا تھا تو یہ سزا منسوخ کردی گئی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہی تھی کہ سزائیں تب لاگو ہوتی ہیں جب رعایا کی تمام بنیادی ضروریات پوری ہورہی ہوں، اور پھر کوئی فساد کےلیے کرنا شروع کردے۔ لیکن اگر بنیادی ضروریات ہی تعطل کا شکار ہوجائیں، اور پھر خاص کر اگر عوام بھی ایسے ہوں جن کا کوئی پرسان حال نہ ہو، ان کے حکمرانوں کو ان کی فکر نہ ہو تو شاید وہاں سزائیں کیا، اخلاقی قواعد و ضوابط بھی منسوخ ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ پروا نہیں ہوتی کہ گھر خدا کا ہے یا اس کے بندے کا۔ وہاں صرف ایک فکر کارفرما ہوتی ہے کہ وہ کس طرح ان حالات کا سامنا کرسکتا ہے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کےلیے ایک وقت کی روٹی کہاں سے لائے گا اور جب کوئی راستہ نہیں ملتا، کوئی چارہ نہیں ہوتا، کوئی سہارا نہیں رہتا تو انسان شاید کانپتے ہاتھوں، بہتی آنکھوں سے کوئی انتہائی قدم اٹھا بیٹھتا ہے۔
اس لیے ہمیں سوچنا ہوگا کہ بات صرف خوف خدا کی کمی نہیں، بلکہ مخلوق کی بے چارگی بھی ہوسکتی ہے، جس سے اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔