’مٹھو میاں‘ کو ہماری ’قید‘ راس آگئی تھی!
یسے کوئی بے زبان جانور یا پرندہ بھی ہمارے گھر ہی کا حصہ بن جاتا ہے، اس کا احساس تب ہوتا ہے، جب ہم جی وجان سے کسی ایسی ’جان‘ سے تعلق پیدا کریں اور اسے نبھائیں۔۔۔ اب بچپن میں نت نئے پرندوں اور پالتو جانوروں کا شوق کس بچے کو نہیں ہوتا۔۔۔ سو ہمیں بھی تھا اور بہت کم سنی میں ہی ایک سرخ چونچ والا سبز توتا ہمارے گھر کا مکین ہوگیا تھا۔۔۔ لیکن ہمارا اس کا ساتھ ایسا ہوگا۔
یہ ظاہر ہے کسی کو بھی اندازہ نہ تھا۔۔۔ خواہش ہماری بھی یہی تھی کہ وہ ’بولنا‘ سیکھے، لیکن چوں کہ جب وہ آیا، تو ’بولنا‘ سیکھنے کی عمر سے نکل چکا تھا، اس لیے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔۔۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ وہ اپنی کچھ مخصوص بولی میں غیر روایتی اور منفرد سی آوازیں نکالنا ضرور سیکھ چکا تھا۔۔۔
جیسے جب ہم اسے ’مٹھو بیٹے‘ پکارتے تو وہ اپنے دونوں ’بازو‘ قدرے کھول کے خوشی سے گردن اُچکاتا، اور آنکھ کے نارنجی دائرے میں اس کی دونوں پتلیاں آنکھوں کی سفیدی میں سکڑ کر نقطے جیسی ٹمٹمانے سی لگتیں اور پھر وہ دھیمی دھیمی سی ایک مخصوص آواز میں اس کا جواب دیتا تھا۔۔۔ ابتداً اس کے پر قدرے گہرے سے رنگ کے تھے، لیکن پھر اس کا بہت اجلا اجلا سا سبز رنگ نکھر آیا تھا اور اس نکھار کے ساتھ اس کی گردن پر سرخ رنگ کی ’کنٹھی‘ بھی ابھر آئی تھی، جو چونچ کے نیچے سے دونوں جانب پھیلنے والی گہری کالی لکیر کے ساتھ مل کر سر کے پیچھے مکمل سرخ ہو جاتی تھی اور اس کے اوپر سر کی طرف ہلکاہلکا سا آسمانی رنگ اُس کی خوب صورتی کو دوچند کر دیتا تھا۔۔۔
اسی زمانے میں اسکول کی کتاب میں شامل نظم ’’آؤ بچو سنو کہانی‘‘ کے یہ مصرع ہمیں خوب بھاتے تھے ’’نوکر لے کر حلوہ آیا… توتے کا بھی دل للچایا… راجا بین بجاتا جائے… نوکر شور مچاتا جائے… توتا حلوہ کھاتا جائے۔۔۔!‘‘ گھر میں جب کبھی حلوہ بنتا، ہم مٹھو کو حلوہ ڈالتے ہوئے اکثر یہ بول پڑھتے۔۔۔ ہمیں ایسا لگتا تھا کہ مٹھو میاں اپنا ذکر سن کر ضرور خوش ہو رہے ہیں۔۔۔ یوں وہ صبح سے لے کر رات تک ہمارے ہر کھانے پینے میں ہمارے ’’ساتھ ساتھ‘‘ رہتے تھے۔۔۔
کہنے کو یہ ’مٹھو‘ فقط ہمارے بچپن کا ایک شوق تھا، لیکن غور کیجیے، تو اس کا کردار کتنا اہم تھا کہ اکثر اس کا ’کھانا‘ ہمارے دستر خوان سمیٹنے کے بعد اٹھائے جانے والے اناج کے دانے اور وہ ’بھورے‘ اور سالن وغیرہ ہوتا تھا، جو کھانے کے بعد دسترخوان پر سے سمیٹا جاتا تھا۔
یہ سب ایک روٹی کے نوالے کے ساتھ جمع کر کے پنجرے میں اس کی کٹوری میں ڈال دیتے تھے اور وہ ہمارے دسترخوان کے ہر طرح کے سالن خوب مزے لے کر کھاتا تھا۔۔۔ اس کی یہ عادت ہوگئی تھی کہ اسے روٹی کا ٹکڑا وغیرہ ڈالو، تو وہ چونچ سے اٹھا کر اسے دوسری پانی والی کٹوری میں ڈبو دیتا اور پھر اسے نرم کر کے اپنے سیدھے پنجے میں پکڑ کر کتر کتر کر نوش کرتا۔۔۔ اگرچہ ہم اسے من پسند ہری مرچ بھی کھانے کو دیتے تھے، لیکن زیادہ تر وہ ہمارے دسترخوان سمیٹنے میں ’مددگار‘ ہوتا۔۔۔ اور بزرگوں کے بقول اس طرح رزق کی بے حرمتی ہونے سے بچ جاتی۔۔۔!
ان ’صاحب‘ کا پنجرہ ہمارے پرانے گھر کی انگنائی میں ڈیوڑھی کے بالکل ساتھ الگنی کی دیوار میں گڑے ہوئے ایک لکڑی کے کھونٹے کے ساتھ ٹنگا ہوا ہوتا تھا، جہاں سے وہ گھر میں ہر آنے جانے والے پر ’نظر‘ بھی رکھا کرتے تھے، بلکہ اکثر کسی نئے مہمان یا رات کو آنے والے مہمان پر اپنے ردعمل کا اظہار ایک مخصوص ’پکار‘ کے ساتھ کیا کرتے، بعضے وقت ایسا ہوتا کہ دائیں سمت کی ڈیوڑھی سے نیا آنے والا مہمان جب بے دھیانی میں آنگنائی کی طرف کو مڑتا، تو ان کے پنجرے سے ٹکرا جاتا، سارا پنجرہ ٹیڑھا سیدھا ہوتا تو اس پر تو وہ اور سخت آواز میں اپنی برہمی کا اظہار کرتے۔۔۔
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ چھٹیوں کی دوپہر کو جب ہم سب آرام کر رہے ہوتے تھے، تو یہ بھی پنجرے کی مرکزی سلاخ پر ایک طرف ہو کر بیٹھ جاتے، کبھی ایک پاؤں اندر کر لیتے اور اپنے سارے پَر نسبتاً بھربھرے سے کرلیتے۔۔۔ اور پھر نیم وا آنکھوں کے ساتھ دھیمے دھیمے نہ جانے کون سی بولی بڑبڑاتے۔۔۔ یہ ان کی ایک اور مخصوص قسم کی آواز ہوتی تھی۔
جو وہ کبھی سہ پہر کو گھر میں سناٹا دیکھ کر تنہائی کے عالم میں بولا کرتے تھے۔۔۔ کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ شام کے وقت وہ اکثر اپنی چونچ ترچھی کر کے آسمان کی جانب اڑتے ہوئے پنچھیوں کی جانب بھی بہ غور دیکھتے، اور اپنے بند چھوٹے سے پنجرے میں ادھر ادھر دوڑ لگاتے، گویا باہر نکلنے کو بے قرار ہو رہے ہوں۔
بس ایسی ہی کچھ بات رہی ہوگی، جس کے باعث ایک دن ہمارے بڑوں نے ہمیں راضی کر لیا کہ اب ’مٹھو میاں‘ کو اڑا دیا جانا چاہیے۔۔۔ کیوں کہ پرندے آزاد فضا میں ہی اچھے لگتے ہیں، یہ بھی اپنے گھر والوں میں جا کر بہت خوش ہوں گے۔۔۔!
سو، ہم نے دل پر بہت جبر کر کے ایک چُھٹی والے روز اس کا باقاعدہ اہتمام کیا۔۔۔ گھر کی انگنائی کے درمیان ان کا پنجرہ رکھ کر اس کا دروازہ کھول دیا گیا۔۔۔ اور ہم خود انگنائی سے متصل کمرے میں جا کر لگے انتظار کرنے۔۔۔ دل میں عجیب سا احساس تھا کہ جسے ہم خوشی تو نہیں کہہ سکتے، البتہ ہلکا سا درد ضرور کہا جا سکتا ہے، کہ کئی برس کے ساتھی کو ہمیشہ کے لیے خود سے جدا جو کر رہے تھے۔۔۔ ہم سب اندر بیٹھے دیکھ رہے تھے، لیکن جناب بہت دیر گزر گئی، لیکن مٹھو میاں نے کھلے ہوئے پنجرے کی طرف کسی قسم کی دل چسپی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا؎
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے!
بہت دیر انتظار کے بعد بالآخر پنجرہ بند کر کے دوبارہ اپنی جگہ پر ٹانگ دیا گیا اور اس روز ہم پر یہ اچھی طرح آشکار ہوگیا کہ وجہ جو بھی ہو اب ’مٹھو میاں‘ ہمارے ساتھ ہی رہنے میں مطمئن ہیں۔۔۔ تبھی ہمیں یاد آیا کہ شروع میں ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا تھا کہ ایک دوپہر کو صفائی کرتے ہوئے ہماری امی سے پنجرے کا دروازہ کھل گیا، تو مٹھو میاں پُھدک کر باہر نکل آئے تھے، لیکن آنگنائی سے باہر جانے کے بہ جائے یہ سیدھے ہمارے گھر کے اندر کی طرف اڑے تھے، ورنہ پرانا گھر تو اتنا کھلا ہوا تھا کہ وہاں سے انھیں اڑ جانے میں کوئی رکاوٹ ہی نہ تھی، کیا خبر یہ اَمر انھوں نے جان بوجھ کر کیا ہو، تاکہ انھیں پکڑ کر دوبارہ پنجرے میں ڈال دیا جائے، اور پھر بہ آسانی ایسا ہی کر دیا گیا تھا۔
ہمارے ’مٹھو میاں‘ کو ایک عادت کاٹنے کی بھی پڑ گئی تھی، اور یہ ’کاٹنا‘ کیا تھا، بس پنجرے کے پاس ہاتھ لائیے، تو وہ برا مان کر چونچ کھول کر لپکتے اور جیسے ایک ٹھونگ سی مارنے کو ہوتے ہوں، تاہم کچھ عرصے بعد یہ بھی آشکار ہوگیا کہ کم از کم ہمارے لیے ان کا یہ ’کاٹنا‘ صرف دکھاوا تھا، کیوں کہ ہم پنجرے میں ہاتھ ڈال کر بھی ان کی کسی بھی گزند سے ہمیشہ محفوظ رہے۔ ہمارے لیے بس یہ تھا کہ وہ ہمارے ہاتھ پر خفیف سی چونچ کھولتے اور بس۔۔۔ یہ شاید ان کی انسیت کا کوئی اظہار ہو، کیوں کہ ہمارا پورا بچپن انھی کے سامنے گزرا تھا۔۔۔ البتہ نہ کاٹنے کی یہ ’رعایت‘ گھر کے کسی اور فرد کے لیے بالکل بھی نہیں تھی۔
جب ہم اسکول کی ذرا بڑی کلاسوں میں آئے، تو اپنے ایک ہم جماعت کے کہنے پر ان کے پَر کٹوانے کے لیے انھیں ان کے گھر لے گئے۔۔۔ ان صاحب نے ہمیں بڑا یقین دلایا تھا کہ انھوں نے اپنے ہاں بھی توتے کے پِر کاٹے ہوئے ہیں، اور وہ آرام سے پنجرے سے باہر گھر میں گھومتا گھامتا رہتا ہے۔ تو ہم بھی اسی شوق میں آگئے، لیکن مٹھو میاں کو پنجرے سے نکال کر اور سختی سے پکڑ کر ان کے پر کاٹنا بہت ہی زیادہ ناگوار گزرا تھا۔۔۔ کیوں کہ ہم نے اتنے عرصے میں آج تک ایسا نہیں کیا تھا۔
بہرحال پَر کٹوانے کے بعد کچھ دن تو ہم یہ کرتے کہ انھیں کچھ دیر کو پکڑ کر پنجرے سے باہر نکال لیتے تھے، شاید ایک بار اور اسی طرح پر کٹوائے، لیکن پھر مٹھو میاں کو ناخوش دیکھ کر یہ امر مناسب خیال نہیں کیا، کیوں کہ انھیں چھوا جانا اور پھر سختی سے دبوچنا بہت زیادہ برا لگتا تھا۔۔۔ ہمیں بس اتنا حق حاصل تھا کہ ان کی چونچ پر ہاتھ لگا لیا یا کھی سر کے اوپر۔ اس کے علاوہ بازوؤں کو چھونے سے بھی وہ برہم ہو جاتے۔۔۔ وقت گزرتا گیا۔۔۔ ہم بھی اسکول سے بڑھ کر اب کالج میں آچکے تھے۔۔۔ بس پھر ہمارے ’مٹھو میاں‘ بھی دھیرے دھیرے کمزور ہوتے چلے گئے اور پھر یہ ہوا کہ ایک دن صبح کو وہ اپنے پنجرے میں مردہ پائے گئے۔۔۔!
یوں ہمارے بچپن کا ایک اہم باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔۔۔ دل میں درد کی ایک گہری لہر اٹھ کر رہ گئی، کہنے کو انگنائی کے ایک کونے میں رکھا ہوا پنجرہ ہی خالی ہوا، لیکن اصل میں ہمارے گھر کا آنگن ہی سُونا ہوگیا، ان کی چہچہاٹ کے بغیر اترنے والی شاموں میں ایک غیر محسوس سا ’سناٹا‘ ٹھیر گیا۔۔۔ آج جب بھی ہم کسی کنٹھی والے سبز توتے کو دیکھتے ہیں، ہمیں فوراً اپنے ’مٹھو میاں‘ کی یاد آ جاتی ہے، واقعی وہ ہمارے بچپنے کے ایک ایسے خاموش ساتھی تھے، جو گئے تو اپنے ساتھ گویا سارا بچپن اور بے فکری بھی لے گئے۔