شیخ کمال الدین خان داؤد زئی

نیشنل ازم (قوم پرستی) کی تشکیل کے بارے میں مفکرین اور دانش وروں کے مختلف نظریات ہیں، لیکن ان سب میں انہوں نے ان عناصر کی نشان دہی کی ہے کہ جو گروپوں، جماعتوں اور برادریوں کو آپس میں ملاتے ہیں اور ایک قوم کی صورت میں متحد کرکے ان میں نیشنل ازم کا جذبہ پیدا کرتے ہیں، جب کہ بعض مفکرین اسے زبان، تاریخ اور کلچر کا سبب قرار دیتے ہیں۔ اور بعض اسے صنعتی عمل اور سرمایہ داری کے عروج کے ساتھ منسلک کر کے ایک جدید نظریہ سمجھتے ہیں، جس وجہ سے نیشنل ازم اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

اس کے تین عناصر ہیں، خودمختاری، اتحاد اور شناخت، یہ تین اہم کردار اسے آگے کی جانب بڑھاتے ہیں یہ معاشرہ کو ذہنی طور پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ ایک آزاد ملک و معاشرے کے لیے جدوجہد کریں اور اگر ضرورت پڑے تو اس کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں۔

بہرحال جن لوگوں نے پختونوں کی تاریخ، ان کی زبان و ادب کا مطالعہ کیا ہو شاید وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ قوم پرستی کا تصور اور جذبہ اس قوم کے عوامی ادب (فوک لور) میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

اس کے علاوہ پشتو زبان کے کلاسیکی ادب میں بھی قوم پرستی اور وطن دوستی کے واضح اشارے موجود ہیں اور اس ضمن میں بہت سی مثالیں اور اشعار کا نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے لیکن طوالت کے ڈر سے ان مثالوں اور نمونوں سے صرف نظر کرتے ہوئے یہاں صرف ایک تاریخی واقعے اور ایک تاریخی کردار کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔

تاکہ اس حقیقت سے پردہ اٹھ سکے کہ تاریخ میں پہلی پختون ریاست کے قیام کے لیے کس نے تحریک چلائی؟ اگرچہ اس سلسلے میں سب سے پہلے پشتو زبان کے معروف ادیب اور محقق مرحوم دوست محمد خان کامل مومند نے قلم اٹھا کر پشتو زبان میں ایک پوری کتاب ’’1630ئ‘‘ کے نام سے لکھ کر شائع کی ہے اور اس بات کا سارا کریڈٹ بھی مرحوم دوست محمد خان کامل کو جاتا ہے کہ انہوں نے پہلی بار پختونوں کی نئی نسل کو اپنے اس عظیم قوم پرست ہیرو شیخ کمال الدین خان داؤد زئی سے روشناس کروایا اور کئی معتبر تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ پختونوں کی تاریخ میں پہلی بار جو وطن پرستی کی تحریک اٹھی تھی اس کے روح رواں اور محرک شیخ کمال الدین خان داودزئی تھے اور جیسا کہ علت و معلول کا فلسفہ ہے کہ ہر واقعے کا رونما ہونا کسی نہ کسی علت اور سبب کا نتیجہ ہوتا ہے۔

اس طرح کمال الدین خان کی بغاوت اور تحریک کے پیچھے بھی کئی عوامل کار فرما تھے، جس کی وجہ سے مجبوراً کمال الدین خان داؤد زئی نے مغل حکم راں شاہ جہاں کے خلاف علم بغاوت کرکے اٹک سے لے کر کابل تک پختونوں کے تمام قبیلوں کو اکٹھا کر کے پشاور شہر کا محاصرہ کیا اور اپنے لوگوں میں اس بات کا جذبہ اور شعور بیدار کیا کہ بحیثیت ایک بڑی تاریخی قوم کے ان کی اپنی ایک الگ قومی ریاست ہونی چاہیے، جہاں پختون اپنی زندگی آزادی کے ساتھ اور اپنے رسم و رواج کے مطابق گزار سکیں۔

شاہ جہاں کے خلاف اٹھنے والی اس چنگاری نے اس وقت شعلوں کی شکل اختیار کرلی جب 1039ء میں خان جہاں لودھی بادشاہ کے مخالف ہو گئے چوں کہ دریا خان جو کہ خان جہاں لودھی کا قریبی دوست اور کما ل الدین خان کا بہنوئی تھا لیکن پھر بھی دریا خان نے خان جہاں لودھی کا ساتھ نہیں دیا، جس کی وجہ سے ایک روز برہان پور میں بادشاہ نے برسبیل تذکرہ خان جہاں لودھی کی بغاوت کے حوالے سے برسر دربار دریا خان کو مخاطب کر کے فارسی میں کہا، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’دریا خان! تم نے تو سنا ہے کہ افغانستان میں غیرت قبرستان سے داخل ہوتی ہے۔

اس لیے تم بہ نام و نشاں افغان ہو لیکن اس مصیبت کے وقت اپنے یار (خان جہاں لودھی) کے ساتھ کیوں شریک نہیں ہوئے۔‘‘ دریا خان کو یہ بات بہت ناگوار گزری ان کی غیرت افغانی جوش میں آئی اس روز اعزاز و منصب کو خیرباد کہہ کر برہان پور سے چل دیے اور خان جہاں لودھی کے پاس پہنچ کر اس کے مددگار ہوگئے۔ بعد میں دیوان صدر خان افغان سید خیل داؤد زئی نے بھی دریا خان کا ساتھ دیا۔

خان جہاں لودھی نے بمقام پیر گاؤں اور دریا خان نے قصبہ بنوسہ علاقہ نظام الملک میں جا کر قیام کیا لیکن ان ایام میں دریا خان اور خان جہاں لودھی کے اشتعال انگیز خطوط بھیجنے سے دریا خان کے سالے شیخ کمال الدین خان جو اس وقت علاقہ پشاور کے گاؤں گیدڑ میں تھے مخالف و بغاوت پر کمربستہ ہو کر مغل حکم رانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

کمال الدین خان نے اپنی جوشیلی تقریروں سے پختونوں کے تمام قبائل کو دریائے اٹک تا کابل اپنے ساتھ متفق و متحد کر کے پشاور شہر کا محاصرہ کیا، جس کی خبر پاکر سعید خان ظفر جنگ منصب دار شاہی جو اس وقت تھانہ کوہاٹ میں تعینات تھے پشاور پہنچے اور ایک زبردست جنگ ہوئی، جس میں کچھ اندرونی سیاسی وجوہات اور مصلحتوں کی وجہ سے کمال الدین خان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ 21 جولائی منگل کا دن اور 1630ء یعنی 1040ء ہجری کا زمانہ تھا۔ اٹک سے لے کر کابل تک اچانک ایک ایسی قومی تحریک اٹھی جس نے شاہ جہاں بادشاہ کے رعب، دبدبے اور حاکمیت پر کپکپی طاری کر دی پختونوں کے تمام قبائل نے کمال الدین خان داؤد زئی کی قیادت میں پورے پشاور شہر کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور اپنے خطے کو مغل حکم راں کے چنگل سے آزاد کرانے کا پختہ عزم کر رکھا تھا۔

کمال الدین خان نے شیخ عبدالقادر احداد خان اُرمڑ کو بھی اعتماد میں لے کر اس بغاوت میں شریک ہونے کی دعوت دی تھی جو کہ معہ کریم داد پسر جلالہ و محمد زمان پیر بردار خان اور سکنہ کوہ تیراہ بنگش خٹک اور دیگر قبائل شیخ عبدالقادر گزر گاہ ایلم گودر پر پشاور سے سات کوس کے فاصلے پر کمال الدین خان سے آکر مل گیا۔ شیخ عبدالقادر کے پہنچنے سے قبل کمال الدین خان نے بھی اپنی تیاری مکمل کرلی تھی اور قبیلہ محمد زئی، گگیانی، مومند، داؤد زئی، یوسف زئی وغیرہ کو جمع کر رکھا تھا۔

سعید خان ظفر جنگ نے اول شہر کے باہر ان سے مقابلہ کرنے کا قصد کیا مگر بعد میں مخالفین کی کثرت پر خیال کرکے یہ ارادہ ترک کردیا اور شہر کے حصارخام کی مرمت اور مورچہ بندی کرکے مدافعت کی تیاری کی۔ مخالفین نے چاروں طرف سے شہرکا محاصرہ کرلیا اور محلہ ہائے بیرون حصار میں تمام قبائل متفرق طور پر متعین ہوگئے اور طرفین ایک دوسرے کے مقابلے کے لیے آمنے سامنے آگئے۔

تلواریں چلتی رہیں، نیزے چلتے رہے، پختونوں کے تمام قبائل بڑی جواںمردی سے لڑ رہے تھے اور عین ممکن تھا کہ مغل فوج بھاگنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرتی کہ کریم داد اور شیخ عبدالقادر نے میدان جنگ سے فرار اختیار کرلی اور اپنے تمام ساتھیوں کو میدان سے پسپائی اختیار کرنے کا اشارہ کر دیا۔

کمال الدین خان کو جب اس بات کا علم ہوا تو فوراً گھوڑے پر سوار ہوکر عبدالقادر کے پاس پہنچے اور انہیں سمجھایا کہ میں آپ کو اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد ہم سرخ روہو کر اقتدار کے مالک ہوں گے اور پشاور پر ہمارا قبضہ ہوگا، لیکن خدارا آپ اپنے ساتھیوں کو جنگ سے باز رکھنے کی تلقین مت کریں، لیکن عبدالقادر نے جواب دیا کہ میں کیا کروں ماموں کریم داد کا یہی حکم ہے۔ کمال الدین خان پھر کریم داد کے پاس بھی گئے اور اس کے سامنے اپنی جھولی پھیلائی کہ آپ لوگ میدان مت چھوڑیے، کچھ دیر کے لیے رک جائیں کیوں کہ یہ ہماری عزت اور پوری قوم کے مستقبل کا سوال ہے۔

پختون ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مغل حکم رانوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرکے اپنی قومی ریاست کے مالک بن جائیں گے، لیکن کریم داد اور عبدالقادر دونوں نے کمال الدین خان کی بات نہیں مانی اور میدان جنگ سے واپس ہوگئے، جب کہ عمر خان مہمند زئی آخری وقت تک بڑی بہادری سے لڑتے رہے۔ بہرحال عبدالقادر اور کریم داد کی پسپائی نے کمال الدین خان کی جیتی ہوئی بازی کو ہار میں بدل دیا اور اس طرح پختونوں کی یہ پہلی قومی بغاوت اور تحریک اپنے ہی لوگوں کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوئی۔

ملا محمد صالح لاہوری اپنی تاریخ عمل صالح میں لکھتے ہیں کہ کمال الدین خان اٹک سے لے کر کابل تک پختونوں کی ایک الگ ریاست بنانا چاہتے تھے اور پختونوں کے تمام قبیلوں کو اعتماد میں لیا تھا اور اسے اس بات پر بھی آمادہ کیا تھا کہ ہم کب تک مغل حکم رانوں کے زیرسایہ رہیں گے۔ جہانگیر اپنی تزک جہانگیری میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے شیر خان افغان کے بیٹے کمال الدین کو ھفتدی (700) اور (500) سوار منصب عطا کیا تھا۔

شیر خان افغان سے مراد شیخ رکن الدین روہیلہ ہے۔ تاریخ بادشاہ نامہ جلد اول میں فہرست منصب داروں میں بھی کمال الدین ولد شیر خان روہیلہ کا منصب ھشتصدی (800) اور قانصد (500) سوار لکھا گیا ہے۔ کمال الدین خان کے والد شیر خان کو جہانگیر نے پشاور کی جاگیر احمد بیگ کابلی سے لیا تھا اور ساتھ ہی درۂ خیبر کی حفاظت و ذمے داری بھی سونپی تھی۔

اسی طرح کمال الدین خان داؤد زئی سکنہ گیدڑ بھی بادشاہ کا منظور نظر تھا، لیکن خان جہاں لودھی اور دریا خان کی بادشاہ سے مخالفت پیدا ہونے سے بہت پہلے جب کمال الدین خان نے مغل حکم رانوں کا پختونوں کے ساتھ ناروا سلوک اور رویہ دیکھا تو ان کی غیرت جاگ اٹھی اور اسی دن سے وہ اس موقع کی تلاش میں تھے کہ کس طرح پختونوں کے تمام قبائل کو متحد کرکے مغل حکم رانوں سے اپنی سرزمین خالی کرائیں اور اپنی قوم کے لیے ایک الگ قومی ریاست قائم کریں۔

اس لیے انہوں نے بادشاہ کا عطاکردہ اعلیٰ منصب چھوڑ کر پورے صوبے اور کابل کے نواح کا دورہ کیا اور لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا۔ بہرحال کمال الدین خان اس وقت اپنے مقصد میں تو کام یاب نہیں ہوئے لیکن اس بات کا سارا کریڈٹ بھی انہیں جاتا ہے کہ انہوں نے پہلی بار پختونوں میں قومی شعور اجاگر کیا اور انہیں اپنے لیے ایک الگ ریاست قائم کرنے کا نظریہ اور تصور دیا، جسے بعد میں میر ویس خان غلجی اور احمد شاہ ابدالی نے عملی شکل دے کر افغانستان کے نام سے ایک الگ ریاست قائم کردی، لیکن افسوس کہ ہماری نئی نسل آج بھی اپنے اسلاف کے کارناموں اور ان کی جدوجہد سے بالکل نابلد ہے۔

اس وجہ سے شیخ کمال الدین خان داؤدزئی کے نام اور ان کی پہلی قومی تحریک سے بھی پختونوں کی اکثریت بے خبر ہے، کیوں کہ ہماری تاریخ آج بھی صرف درباروں، بادشاہوں، راجاؤں اور نوابوں کے گرد گھومتی ہے اور ان واقعات اور کرداروں سے جان بوجھ کر پہلوتہی کرتی رہی ہے، جن کے ذکر سے لوگوں میں ایک مثبت قومی اور طبقاتی شعور کا پیدا ہونا ایک فطری اور تاریخی امر ہے۔

1630ء کی اس قومی تحریک کے روح رواں کمال الدین خان کے بارے میں آج تک تاریخی کتب میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اس میں شیخ کمال الدین داودزئی ان کو ایک ایسی شکل میں پیش کیا گیا ہے کہ انہوں نے بادشاہ سے بے وفائی کر کے ان کے خلاف انتشار اور فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی تھی، اور ظاہر ہے کہ کمال الدین خان اس وقت اپنی قوم کے لیے جو کچھ کرنا چاہتے تھے اور اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے جو منصوبہ بندی کی تھی اسے مغل دربار سے وابستہ مورخین یا اس کے بعد دیگر درباری قسم کے تاریخ لکھنے والے انتشار اور فتنہ کا نام نہیں دیں گے تو اور کیا نام دیں گے؟

ایک محکوم قوم یا ایک محکوم طبقے کی اس طرح کی تحریک حاکم قوم اور طبقات کے لیے انتشار اور فتنہ ضرور ہوتا ہے لیکن محکوم قوم کے لیے وہ ایک قومی اور آزادی کی تحریک اور انقلاب کی بنیاد بنتا ہے۔ پھر انقلاب اور بغاوت میں بھی بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ کمال الدین خان نے 17 ویں صدی یعنی فرانسیسی انقلاب سے بہت پہلے اپنی قوم میں قوم پرستی کی داغ بیل ڈال کر قوم پرستی اور وطن پرستی کی تاریخ میں اپنا نام امر کر دیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں