نائٹ ٹمپلرز
مذہب کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان ہے ۔
اگر ہم قدیم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہر دور کا انسان کسی نہ کسی کی پرستش کرتا رہا ہے ۔ اپنی حرص و ہوس کو پورا کرنے کیلئے مذہب کے نام پر بہت سے کام ہوتے رہے اور اب بھی ہو رہے ہیں ۔
مذہبی بنیادوں پر کئی تحریکوں اور تنظیموں کی بنیاد رکھی گئی جنہوں نے انسانی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ۔ نائٹ ٹمپلرز بھی انہی تحریکوں میں سے ایک ہے جس کی بنیاد مذہب پر رکھی گئی ۔
اس تنظیم نے دنیائے عیسائیت پرگہرے اثرات مرتب کئے ہیں جو تاریخ سے مٹائے نہیں جا سکتے ۔ معاشرے کی اصلاح ہو یا ہم مذہبوں کا تحفظ نائٹ ٹمپلرز ہر معاملے میں صف اول پر نظر آنے لگے۔ حد سے زیادہ طاقت و دولت اکثر انسان کی عقل پر پٹی باندھ دیتی ہے۔
لیکن اصول قدرت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ نائٹ ٹمپلرز پر وہ وقت بھی آیا جب ان کے اثاتے بادشاہوں کی دولت سے بھی تجازو کر گئے اور انہوں نے ٹمپلرز سے قرض لینا شروع کیا ۔ پھر انہوں نے اس وقت کو بھی جھیلا جب ان کے ساتھیوں اور گرینڈ ماسٹر کو سرعام زندہ جلا دیا گیا ۔
قیام کا پس منظر
اگر ہم عیسائیت کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہمیشہ پیار و محبت کا درس دیا ۔ انہوں نے دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا ۔ انجیل مقدس میں اس طرح کے کئی اقوال موجود ہیں جن میں سے ایک مشہور قول پیش خدمت ہے: ’’جو تم پر لعنت کرتے ہیں اْنہیں برکت دو، اور جو تم سے بْرا سلوک کرتے ہیں۔
اْن کے لئے دعا کرو ۔ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو اْسے دوسرا گال بھی پیش کر دو ۔ اِسی طرح اگر کوئی تمہاری چادر چھین لے تو اْسے قمیص لینے سے بھی نہ روکو ۔‘‘ ( انجیل لوقا ۔ 6_29تا30)
عیسائی امراء و بادشاہ اپنی دولت اور تاجر اپنی تجارت بڑھانا چاہتے تھے ۔ غریب اپنی زندگی کی سختیوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے اس لئے پوپ نے مقدس جنگ کا اعلان کیا تاکہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دیا جائے ۔
یہ بھی کہا گیا کہ اس جنگ میں شامل ہونے والے کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور ساتھ ساتھ انھیں مسلمانوں سے دولت ملے گی ۔
تو لوگ مذہب اور دولت کے لئے اس لشکر میں شامل ہو گئے ۔ اس بات کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ دوران سفر انہوں نے اسی امید پر بہت سی مسلم اور یہودی بستیوں کو تاخت و تاراج کیا تا کہ انھیں دولت مل سکے اور بالآخر 1099ء کو یروشلم پہنچ گئے جو انہوں نے پانچ ہفتوں کے محاصرے کے بعد مسلمانوں کے قبضے سے لے لیا ۔ فتح کے بعد انہوں نے شہر میں موجود ہر مسلمان مرد و عورت کو بے دریغ قتل کیا ۔
یہاں تک کہ جن لوگوں نے مسجد اقصیٰ میں پناہ لی تھی انھیں بھی نہیں چھوڑا ۔ حالانکہ مسجد اقصیٰ نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے بھی مقدس ہے مگر انہوں نے اس کی بھی بے حرمتی کی ۔ کچھ غرمسلم مصنفین نے ، جن میں ریمینڈ اور ڈیسمنڈ سیوارڈ بھی شامل ہیں ان مناظر کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے ۔ ایک بیان کے مطابق فتح پروشلم کے بعد 70 ہزار اور دوسرے بیان کے مطابق 40 ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا ۔
قیام اور وجہ تسمیہ
جرمنی میں بہادر لوگوں کو ایک خطاب سے نوازا جاتا تھا جو ’’ نیخت ‘‘ کہلاتا تھا ۔ پھر وہاں سے یہ لفظ انگریزی میں آیا جو بگڑ کر نائٹ بن گیا ۔اس لئے یہ لفظ انگریزی تلفظ میں تو نائٹ ہے لیکن اگر بولنے میں مروجہ اصول و املا کی پابندی نہ کی جائے تو لفظ Knight کو ’’ کینخت‘‘ پڑھا جائے گا ۔ یروشلم کی فتح کے بعد چند اشخاص مسجد اقصی میں جمع ہوئے اور باہم حلف اْٹھا لیا کہ جو زائرین یہاں آئیں گے ہم اْن کی حمایت و خبر گیری کریں گے ۔
یہ جماعت نائٹ ٹیمپلر ز (ہیکل سلیمانی والے نائٹ) کے نام سے مشہور ہوئی اور اپنے گروہ کو ان لوگوں نے حصول برکت کے لیے ولی برنارڈ کے نام سے وابستہ کر دیا ۔ حرم سلیمانی میں بیٹھ کے انہوں نے جو حلف اْٹھایا تھا اْس کی رْو سے یہ لوگ صرف مذہب کے سپاہی بن گئے تھے ۔
انہوں نے دنیا چھوڑ دی، وطن بھلا دیے ۔ بیت المقدس کے سوا کسی شہر کو اپنا وطن اور شہر نہیں سمجھتے تھے ۔ گھر بار سے دست بردار ہو گئے اور سوائے خاندانِ مسیح کے خاندان کے کسی کو اپنا گھرانا نہیں بتاتے تھے ۔
جائیداد سب کی مشترک رہتی تھی اور مشترکہ زندگی بسر کرتے ۔ ایک ہی سرمایہ سب کی دولت تھا ۔ خطروں اور مصیبتوں میں ایک دوسرے کے جان نثار تھے ۔ گویا ایک قوت اور ایک ہی روح سب پر حکومت کر رہی تھی ۔ ان کا سامان زینت صرف ہتھیار تھے ۔
ان کے گھروں میں جو عبادت خانوں کا حکم رکھتے ، نہ روپیہ پیسہ ہوتا نہ سامان دولت و حشمت۔ زینت و نمائش کی چیزوں سے انہیں نفرت تھی ۔ بہت ہی سادی اور بھدی چیزوں سے اپنی ضروریات زندگی پوری کرتے ۔ نمائش کے لیے وہاں صرف ڈھالیں، تلواریں، نیزے اور مسلمانوں سے چھینے ہوئے علم نظر آتے ۔
لڑائی کا نام سنتے ہی اپنا فولادی اسلحہ لے کے دوڑتے ۔ پھر نہ حریف کی کثرت سے ڈرتے اور نہ دشمنوں کے جوش و خروش کی پروا کرتے ۔
ایک دوسرا گروہ اس طرح بنا کہ یورپ سے لشکر کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی آئے تھے جو فلاکت زدہ زائروں اور بیت المقدس کے مفلس و شکستہ حال نصرانیوں کی خبر گیری کرتے تھے ، خصوصاً ان بہادروں کی تیمار داری کے لیے جو مسلمانوں سے لڑتے تھے ۔
اس خدمت کو جن لوگوں نے اپنے ذمے لیا وہ بھی ایک قسم کے نائٹ تسلیم کیے گئے اور ’’ نائٹ ہاسپٹلر ز‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ اْنہوں نے اپنے آپ کو ولی یوحنا کی طرف منسوب کر کے اپنا خطاب ’’نائٹس آف سینٹ جان ‘‘ یعنی ’’ ولی یوحنا کے نائٹ ‘‘ قرار دیا ۔
یہ دونوں قسم کے نائٹس فولادی خود اور چار آئینے پہنتے ۔ ’’ نائٹ آف ہولی سپیکر‘‘ (مرقد مسیح کے نائٹ ) کہلانے کے باعث سب سے زیادہ معزز خیال کیے جاتے اور چونکہ ’’لاطینی سلطنتِ ارض مقدس‘‘ کو (جو لاکھوں کروڑوں بندگانِ خدا کے خون کا سیلاب بہا کے عین مسلمانوں کے بیچ میں قائم کی گئی تھی) ان لوگوں سے مدد ملتی تھی ۔
اس لئے وہ ان کی بے انتہا قدر کرتی اور اپنی زندگی کو انہی کے اسلحہ پر منحصر تصور کرتی ۔ زائرین یہاں سے واپس جا کر ساری مسیحی دنیا میں ان کی جانبازی اور بہادری کے قصے بیان کرتے ۔
ایک تیسر ا گروہ ٹیو ٹانک نائٹوں کا بھی قائم ہو گیا جو نائٹ ٹیمپلرز کا ہم مذاق تھا ۔ تینوں گروہوں میں فرق اور امتیاز یہ تھا کہ ٹمپلر سفید چغہ پہنتے جس پر سرخ صلیب بنی ہوتی ۔ ہاسپٹل والے سیاہ چغہ پہنتے اور اْس پرسفید صلیب ہوتی اور ٹیو ٹانک نائٹ سفید چغہ پہنتے جس پر سیاہ صلیب ہوتی ۔
1118ء میں فرانس کے علاقہ برگنڈی کے ایک نائٹ ’’ہیوگس دی پینس‘‘ نے مع اپنے آٹھ رفقا کے بیت المقدس کے اسقف اعظم (پوپ)کے سامنے جا کر حلف اْٹھایا کہ ’’ہم اپنی زندگی بیت المقدس کے راستوں کی نگہبانی اور زائرین کو بحفاظت لے آنے میں نذر کر دیں گے ۔ باضابطہ طور پر قانونِ ملت کی پابندی کریں گے اور بے انتہا اطاعت اور خود فراموشی کے ساتھ آسمان کے بادشاہ کی طرف سے جدال و قتال کریں گے ۔‘‘
یہ پہلا عہد تھا جس نے ان ’ نائٹ ٹمپلرز‘ کی بنیاد قائم کی اور جب شاہ بیت المقدس بلدون ثانی نے خاص مسجد اقصیٰ کے اندر اپنا کلب قائم کرنے کے لیے جگہ دیدی تو اس نئے گروہ کو مزید مضبوطی حاصل ہو گئی ۔ بہت سے مغربی مورخین نے ’نائٹ ٹمپلرز ‘ کے قیام کی یہ وجہ بیان کی کہ جب یروشلم فتح ہوا تو دور دراز کے ملکوں سے عیسائی زائرین زیارت کے لئے یروشلم آتے تو راستے میں مسلمان ان کے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے ۔
اس لئے ان کی حفاظت کے لئے نائٹ ٹمپلرز کا قیام عمل آیا حالانکہ بہت سے غیر مسلم مورخین بھی اس بات کو بغیر کسی تردد کے تسلیم کر چکے ہیں کہ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے علاقوں میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی دی ہے ۔ کسی شہر کی فتح پر عیسائیوں کی طرح غیرمذہبوں کا قتل عام نہیں کیا ۔ اس لئے اس بات میں کوئی صداقت نظر نہیں آتی ۔
تنظیم کے مقاصد
دس برس بعد شہر ٹرائے میں بہ منظوری پوپ ہو نیوریوس ثالی ایک کونسل میں ہوئی جس میں اس گروہ کے لیے ایک دستور العمل مدون ہو گیا ۔ اس میں 72 قاعدے تھے جو پوپ اور اْسقف بیت المقدس کی منظوری سے رائج ہوئے ۔
اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کی مذہبی جان نثاری اور خاص جانبازی کی اس قدر شہرت ہوئی کہ ساری مسیحی دنیا گرویدہ ہو گئی اور ہر جگہ ، ہر سر زمین سے اْن کے لیے سرمایہ فراہم ہونے لگا ۔ جس میں قوم نے اس قدر مستعدی دکھائی کہ ملوک وامرا اپنی سلطنتیں اور ریاستیں ان کی نذر کیے دیتے تھے اور ایطالیہ سے لے کر اسپین تک ہر چھوٹے بڑے حکمران نے بڑی بڑی جائیدادیں ان لوگوں کو نذر کر دیں ۔
یہ گروہ باوجود سادگی اور مشقت و تنگی کے زندگی بسر کرنے کے دنیا کے تمام تاج داروں سے زیادہ دولت مند ہو گیا ۔ اس کے ساتھ ہی ہزار ہا خلقت گھر بار چھوڑ کے ان کے جتھے میں ملنے لگی ۔
ان کا پہلا سرغنہ جو ’’ماسٹر ٹمپلر ‘‘ کہلاتا وہی ’’ہیو‘‘ قرار پایا ۔ دوسر اماسٹر اْس کے بعد رابرٹ ڈکراؤن ہوا ۔ اْن کا جانشین ’’ ایور آرڈ‘‘ قرار پایا ۔ اور یوں ہی ماسٹروں کے انتخاب کا سلسلہ جاری رہا ۔ ایور آرڈ کے عہد میں ان لوگوں کی سپہ گری اس قدر کامیاب اور باقاعدہ تھی کہ اکثر سلطنتیں اپنی فوجیں انہی کے قواعد کے مطابق مرتب کرنے لگیں ۔ صلیبی لڑائی میں اہم فوجی خدمات یہی لوگ انجام دیتے تھے ۔
بعض مورخین کے مطابق ٹمپلرز کی عیسائیت کی خدمت صرف ایک دکھاوا تھی ۔ اس کے پس پردہ ان کے مقاصد کچھ اور تھے۔ فری میسنری کی ایک کتاب ’’ اخلاق اور عقیدہ ‘‘ میں گرینڈ ماسٹر البرٹ پائیک نے لکھا ہے کہ ٹمپلرز دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کے ٹمپل کی تعمیر کرنا چاہتے تھے ۔
انگریز مصنفین کرسٹوفر نائٹ اور رابرٹ لوماس کے مطابق انھیں ایسی دستاویز اور چیزوں کی تلاش تھی جو قدیم مصری و یہودیت سے تعلق رکھتی ہوں تاکہ ان کو مخصوص طاقتیں مل سکیں اس کے لئے انہوں نے کھدائی کی اور کامیابی بھی حاصل کی ۔
تنظیمی ڈھانچہ
ٹمپلرز کی تین کلاسیں تھی:
1) امیر امراء
2) مختلف عہدوں پر فائز جنگجو
3) خادمین
ہر ٹمپلر کو تین گھوڑے اور ایک نوکر رکھنے کی اجازت تھی ۔ رازداری ان کا سب بڑا قانون تھا ۔ اس لئے وہ نہ شادی نہیں کر سکتے تھے اور نہ دوست احباب کے ساتھ خط کتابت ۔ ان کی سب جائیداد تنظیم کی ملکیت تھی کیونکہ ذاتی جائیداد رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ سفید رنگ کاچوغہ جس پر سرخ صلیب بنی ہو ان کا مخصوص لباس تھا ۔ تمام ٹمپلرز ایک دوسرے کو بھائی کہہ کر بلاتے تھے ۔
اگر انھیں کوئی چیز ملتی تو اسے گرینڈ ماسٹر کے سامنے پیش کیا جاتا ۔ وہ چاہتا تو اسی کو لوٹا دیتا جس کو یہ ملی تھی اور چاہتا توکسی اور ضرورت مند کو دے دیتا ۔ گرینڈ ماسٹر کے حکم کو اللہ کا حکم تسلیم کیا جاتا اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تھا ۔
تنظیم ِ میں داخلے کا طریقہ
تنظیم میں داخل ہونے کے لئے بھی کچھ شرائط تھی جس میں امیدوار کا صحت مند اورغیر شادی شدہ ہونا اورخود کو تنظیم کے لئے پیش کرنا شامل تھا ۔ پہلے امیدوار کو ایک کمرے میں لے جایا جاتا ۔ وہاں اسے مستقبل میں پیش آنے والی تمام مشکلات سے آگاہ کیا جاتا ۔ پھر پوچھا جاتا کہ کیا وہ اب بھی تنظیم میں شامل ہونا چاہتا ہے؟ اگر امیدوار ’ ہاں‘ کہتا تو اسے گھٹنوں پر بٹھا کر بائیبل دی جاتی اور پوچھا جاتا :’’ کیا وہ شادی شدہ ہے؟‘‘ اگر جواب ’’نہیں‘‘ میں ہوتا تو اس سے حلف لیا جاتا کہ وہ مرتے دم تک تنظیم اور بھائیوں کا وفادار رہے گا اور تنظیم کے متعلق ایک لفظ بھی باہر کی دنیا کو نہیں پہنچائے گا ۔ حلف اٹھانے کے بعد گرینڈ ماسٹر نئے شامل ہونے والے بھائی کے ہونٹوں کو چومتا اور پھر اسے ٹمپلرز کا چوغہ اور بیلٹ دیا جاتا جو پھر مرتے دم تک نہیں اتارا جاتا۔
تنظیم کی طاقت
پوپ کی طرف سے ملنے والی آزادی کے باعث یہ تنظیم مشہور ہونے لگی، لوگ تیزی کے ساتھ اس میں شامل ہونے لگے ، یوں یہ تنظیم وسطی یورپ کی سب سے کامیاب فوجی اور مالیاتی تنظیم بن گئی ۔ 1147ء تک صرف یروشلم میں 700 امراء اور تنظیم سے تعلق رکھنے والے 2400 ملازمین تعینات تھے ۔ اس وقت کی دریافت دنیا میں 3468 محلات ٹمپلرز کی ملکیت تھے ۔
لوگ انھیں ہدیے اور نذرانے دیتے۔ انہوں نے زمینی و سمندری راستوں میں تجارتی چوکیاں قائم کیں ۔ یورپ کے امیر ترین بینکار اور دوسرے لوگ اس میں شامل تھے ۔ یہ تنظیم خود مختار تھی جو کسی بادشاہ کو ٹیکس یا کوئی دوسری ادائیگی کرنے کی پابند نہیں تھی بلکہ صرف اسقف اعظم یعنی پوپ ہی ان سے کسی قسم کی جواب دہی کر سکتا تھا ۔
یوں ان کی دولت اور طاقت بڑھتی رہی ۔ ایک اندازے کے مطابق 13ویں صدی میں ٹمپلرز کی تعداد 160000 یعنی ایک لاکھ ساٹھ ہزار تھی جس میں بیس ہزار امراء وہ تھے جو اس وقت سپرپاور تسلیم کئے جاتے تھے ۔
بارہویں صدی میں سفر کرنا خطرناک سمجھا جاتا تھا کیونکہ ڈاکوؤں اور لٹیروں سے لٹ جانے کا خوف بہت ہوتا تھا ۔
اس لئے ان کی بینکنگ کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ کوئی شخص اپنے شہر میں ٹمپلرز کو اپنی رقم جمع کروا کر ایک رسید حاصل کر لیتا جس پر کوئی خفیہ کوڈ لکھا ہوتا ۔ یروشلم پہنچ کر وہی رسید یہاں موجود ٹمپلرز کو دکھاتا تو وہ اپنی فیس یعنی اس رقم پر سود کاٹ کر باقی رقم اس شخص کو دے دیتے ۔ اس طرح پیسے کم ملتے مگر سفر میں لٹ جانے کا خطرہ نہیں رہتا تھا ۔
ٹمپلرز کا زوال
صلیبی جنگوں میں نائٹ ٹمپلرز صف اول میں ہوتے تھے ۔ انہوں نے کئی جنگوں میں بہادری کے جوہر دکھائے۔ جب بھی عیسائیوں کو شکست ہوتی تو اکثر لوگ اس کا الزام نائٹ تمپلرز کے سرتھوپ دیتے ۔
جب غزہ کا ایک قلعہ ان کے حوالے کیا گیا جسے انہوں نے خوب مضبوط کیا اور چار سال بعد ان کا ماسٹر برنارڈ چالیس ٹمپلرز کے ساتھ نہایت بہادری کے ساتھ عسقلان میں مسلمانوں سے لڑنے کے لئے گھس گیا مگر مسلمانوں نے اس کے لشکر کو ایسا گھیر کر مارا کہ کسی کو بھی زندہ بچ کر آنا نصیب نہ ہوا ۔ بجائے اس کے کہ عیسائی ان کی بہادری کی داد دیتے ، ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے لالچ میں آکر یہ حماقت کی تھی ۔
چند روز بعد مشہور ہوا کہ ایک مصری شہزادہ جو عیسائیوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوگیا تھا اور دین مسیحی قبول کرنے پر نیم راضی تھا اْسے ان نائٹوں نے روپیہ لے کے اہل مصر کے حوالے کر دیا اور اسی طمع میں ان کی وجہ سے اور بھی کئی خون ہوئے ۔
1166ء میں ان نائٹوں کو یہ الزام دیا گیا کہ یرون کے پار کا ایک مضبوط قلعہ انہوں نے روپیہ لے کے نور الدین زنگی کے کسی سردار کے حوالے کر دیا ۔
چنانچہ اس جرم کی پاداش میں خود مسیحی بادشاہ بیت المقدس امل ریق نے بارہ ٹمپلروں کو پھانسی پر لٹکا دیا ۔ یہی واقعات پیش آرہے تھے کہ سلطان صلاح الدین اعظم لشکر لے کے مصر سے آ پہنچا ۔ ہزاروں نائٹ مختلف میدانوں میں لقمہ شمشیر ہوئے اور صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس اور شام کے تمام شہروں پر قبضہ کر کے مسیحی سلطنت کا خاتمہ کر دیا ۔
اس وقت ٹمپلرز مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کو چھوڑ کے ساحلی شہر عکہ میں پہنچے۔ جب ایک زمانے کے بعد عکہ بھی مسیحیوں کے ہاتھ سے نکل گیا تو طرابلس الشام میں جا کے پناہ گزین ہوئے ۔
1291ء میں مسلمانوں نے صلیبیوں کے آخری گڑھ ایکر پر بھی قبضہ کر لیا اور ٹمپلرز کو وہاں سے بھی نکلنا پڑا ۔ یوں عیسائی زائرین کی حفاظت کا وہ مقصد جو نائٹ ٹمپلرز کی بنیاد تھا ختم ہو گیا ، یوں وہ یورپ میں منتقل ہو گئے ۔
نائٹ ٹمپلرز یورپ میں اتنے بااختیار اور طاقت ور بن گئے تھے کہ بادشاہ اور خود پوپ بھی انھیں اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے ۔ عیسائی دنیا میں پوپ کا مرتبہ و اختیار سب سے بلند ہوتا ہے اور بادشاہ بھی ان سے ڈرتے ہیں ۔ اس لیے پاپاؤں نے اپنی طاقت بڑھانے کے لیے ٹمپلرز کو بہت زیادہ اختیارات دئیے ۔ پوپ بادشاہ گر تھے جسے چاہتے تاج و بادشاہت سے محروم کر دیتے مگر پوپ بنی فیس کے زمانے میں فرانس کے بادشاہ فلپ دی فئیر نے اپنے تدبر سے کام لیا ۔
پوپ بنی فیس قید ہوا اور پھر اسی کی قید میں مرا ۔ پھر فلپ نے مذہبی کونسل کے اراکین کو ڈرا دھمکا کر اپنی مرضی کا پوپ منتخب کروایا جو کلیمنٹ پنجم تھا ۔ انتخاب سے پہلے فلپ نے کلیمنٹ پنجم سے اپنی چھ شرائط پر حلف لیا۔ وہ شرائط کیا تھیں اس بارے میں کوئی نہیں بتا سکا۔ بعدازاں حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شرائط نائٹ ٹمپلرز کے متعلق ہوںگی ۔
نصف صدی سے عیسائی دنیا نائٹ ٹمپلرز کے متعلق مختلف افواہوں کا شکار تھی ۔ مثلاً ٹمپلرز عیسائی عقائد کی خلاف ورزی میں صلیب پر تھوکتے ہیں ، شیطان کی پرستش کرتے ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں ۔ چودھویں صدی ٹمپلرز کے لیے تباہی لے کر آئی ۔ فلپ انتظار کرتا رہا کہ کلیمنٹ کوئی کاروائی کرے مگر وہ اس کی جرات نہ کر سکا ۔ شومئی قسمت فرانس کے ایک شہر طولون میں ایک ٹمپلر کسی جرم میں گرفتار ہوا ۔
اس نے بادشاہ فلپ سے کہا کہ اگر وہ اسے رہا کرے تو اسے ایک ایسے راز سے آگاہ کرے گا جو ملک و قوم کی ترقی کے لیے ہو گا ۔
14 دسمبر 1307ء کو فلپ نے اس قیدی سے ملاقات کی ۔ 13 اکتوبر 1309ء کو بادشاہ فلپ نے حکم دیا کہ ملک میں تمام نائٹ ٹمپلرز کو گرفتار کر لیا جائے۔ ان پر الزام عاید کیا گیا کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مصلوبیت کا انکار کرتے ہیں ، عورتوں کے ساتھ شرمناک حرکتیں کرتے ہیں ، شیطان کے بت بنا کر اس کی عبادت کرتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو حکومت کے خلاف بولنے پر ابھارتے ہیں ۔
صرف یہی نہیں بلکہ فلپ نے انگلستان، سسلی اور یورپ کے دوسرے ممالک کے حکمرانوں کو خط لکھے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں موجود نائٹ ٹمپلرز کو گرفتار کر لیں ۔ غرض کوئی ایسی جگہ نہیں بچی جہاں سے ان ٹمپلرز کو گرفتار نہیں کیا گیا ۔
بعض حکمرانوں نے ٹمپلرز کو گرفتار کرنے سے انکار کیا تو انھیں پوپ کے ذریعے احکامات بھیج کر گرفتار کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ خصوصاً فرانس میں ٹمپلرز کو تفتیش کے دوران ہولناک اذیتیں دی گئیں ۔ بہت سے ٹمپلرز نے خوفزدہ ہو کر ان باتوں کا اقرار کیا کہ ان پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ بالکل درست ہیں ۔
1310ء میں ویانا میں ایک اعلیٰ کونسل قائم کی گئی تاکہ وہ ٹمپلرز کے جرائم پر غور کر سکے ۔ 1311ء میں 54 ٹمپلرز کو پوپ کے حکم سے زندہ جلا دیا گیا ۔ ان واقعات نے لوگوں پر دہشت طاری کر دی ۔ آخرکار 1314ء کو اس تفتیش کا اختتام ہوا ۔
ٹمپلرز کو اذیتیں دے کر اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ مجمع عام میں ان تمام جرائم کا اعتراف کریںکہ وہ سب الزامات سچ ہیں ۔ اسی سال نائٹ ٹمپلرز کی تنظیم کو غیر قانونی قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی گئی اور گرینڈ ماسٹر جیکس دی مولے سمیت سے بہت سے ٹمپلرز کو سرعام زندہ جلا دیا گیا ۔
بیشتر مغربی مورخین کے مطابق ٹمپلرز پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ بالکل سچ تھے کیونکہ انہوں نے اعتراف بھی کیا تھا اور اس سلسلے میں کچھ شواہد بھی ملے تھے ۔ جب کہ بعض مصنفین کے خیال میں یہ سب الزامات بادشاہ اور پوپ نے ٹمپلرز کی تنظیم کو ختم کرنے کے لگائے تھے کیونکہ وہ نائٹ ٹمپلرز کی طاقت اور دولت سے خوفزدہ تھے اور انھیں اپنی حکومت کے لیے خطرہ سمجھنے لگے تھے ۔
نائٹ ٹمپلرز نے دو بار بادشاہ فلپ کی طرف سے قرض کے لیے دی گئی درخواست مسترد کر دی تھی ۔ اس حوالے سے معروف مصنف و مورخ عبد الحلیم شرر لکھتے ہیں : ’’ ( وہ ) چاہتے تھے اسے وہی مسیحیت بنا دیں جو دنیا کو حضرت مسیحؑ سے ملی تھی جس کی تصدیق اسلام کر رہا تھا لیکن یہ امر کس قدر قابل مضحکہ ہے کہ انہی مذکورہ عقائد کی بنا پر ٹمپلر ملحد بتائے جاتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ عقیدے بعض بت پرست قوموں سے اخذ کیے ۔
جو تحریک بت پرستی کا استیصال کرنا چاہتی ہو اس کو بت پرستی بتانا اور اپنی صنم پرستی کو بھول جانا ، سچ یہ ہے کہ یورپ کے عجائبات میں سے ہے اور اس پر زیادہ حیرت کی یہ بات ہے کہ ٹمپلروں کے عقائد کو اکثر محققین یورپ دور و دراز کے بت پرست فرقوں میں ڈھونڈتے ہیں اور اسلام پر نظر نہیں ڈالتے جس نے ٹمپلروں کو ایک باضابطہ قانون توحید بتا کے اپنا والہ وشید ا بنا لیا تھا ۔‘‘ (یورپ کے بانکے از عبدالحلیم شرر)
اس بات کے حق میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ فرانس کے علاوہ بہت سے دوسرے ممالک میں ٹمپلرز کو بری کر دیا گیا تھا کیونکہ ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا تھا لیکن ان سب واقعات سے نائٹ ٹمپلرز کی تنظیم کے تاروپود بکھر رہ گئے ۔ گرینڈ ماسٹر کو زندہ جلائے جانے کے بعد باقی ماندہ ٹمپلرز دوسرے ممالک کی طرف فرار ہو کر زیر زمین چلے گئے ۔ بہت سے ٹمپلرز نے سکاٹ لینڈ میں پناہ لی ۔ کچھ سپین اورکچھ پرتگال کی طرف نکل گئے ۔ ایک بڑی تعداد نائٹ ہاسپٹلرز کے گروہ میں شامل ہو گئی ۔
غرض ایک طرح سے نائٹ ٹمپلرز کا نام و نشان مٹ گیا مگر وہ باقی رہے ۔ کچھ مغربی مورخین کے مطابق ٹمپلرز نے زیر زمین جانے کے بعد فری میسن میں اپنی جگہ بنالی اور ان میں گھل مل گئے ۔ کیونکہ فری میسن کے کئی اصول و قوانین وہی ہیں جو نائٹ ٹمپلرز نے بنائے تھے جن میں سب سے بڑا قانون رازداری کا تھا ۔