پاکستان میں سرمایہ کاری کا ماحول کیوں پیدا نہیں ہورہا؟
پاکستان ان دنوں اپنے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ معاشی بحران ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والی شدید قلت اور عالمی اداروں کی جانب سے امداد اصلاحات کے ساتھ مشروط کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ کیونکہ پاکستان کی معیشت کا انحصار درآمدات پر ہے اور پاکستان کو ایک بڑے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔
اب پاکستان کو نہ صرف عالمی مالیاتی ادارے بلکہ دوست ملک بھی معاشی اصلاحات اور ٹیکس نیٹ بڑھائے بغیر امداد دینے کو تیار نہیں۔ اور اب تو سعودی وزیر خزانہ نے کھل کر یہ بات کہہ بھی دی ہے۔
اگر پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے جان چھڑانی ہے اور ملک کو ڈالر کمانے کے قابل بنانا ہے تو مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوگا۔ مگر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں کاغذ پر تحریر بہترین پالیسیاں عملی طور پر بری طرح ناکام ہورہی ہیں؟ ایسے میں انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز سے وابستہ نوفل شاہ رخ کا پاکستان کے سرمایہ کاری کے ماحول پر سابق وزیر مملکت اور سابق سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین محمد اظفر احسن کے کلیدی خطاب کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ محمد اظفر احسن نے سابقہ وزیراعظم عمران خان کی دعوت پر تقریباً ساڑھے پانچ ماہ سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین کے طور پر خدمات سرانجام دی تھیں۔ اور وہ کسی قسم کا سیاسی بوجھ بھی اپنے کندھے پر لادے ہوئے نہ تھے۔ اس وجہ سے ان کی گفتگو ایک ٹیکنوکریٹ اور محب وطن پاکستان کی بات سمجھی جانی تھی، اس لیے مجلس میں آن لائن میں بھی شریک ہوگیا۔
محمد اظفر احسن نے گفتگو کی ابتدا حکومتی سطح پر پالیسیوں میں عدم تسلسل سے کی۔ کیونکہ جب وہ سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین منتخب ہوئے تو سابقہ حکومت کے چوتھے چیئرمین تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے علاوہ حکومت نے پانچواں فائنانس سیکریٹری تعینات کیا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا چھٹا چیئرمین تین سال میں کیا۔ یہ تمام عہدے ملکی اقتصادیات اور معیشت کےلیے انتہائی کلیدی ہوتے ہیں اور تین سال سے کم عرصے میں ان عہدوں پر مسلسل تبدیلی اصل حقیقت کو آشکار کرتی ہے۔
ملک میں مقامی اور بیرونی سرمایہ کاری کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کاروبار اور صنعت چلانے کو جہاد قرار دیا۔ اظفر کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں کا اصل مسئلہ بیوروکریسی کا رویہ ہے۔ ایف بی آر اسی پر بوجھ ڈالتا ہے، جو ٹیکس نیٹ میں ہے۔ اور جو نیٹ سے باہر ہے وہ مزے کررہے ہیں۔ اظفر نے اس بات کی بھی نفی کی کہ پاکستان میں کوئی سرمایہ کاری کرنے نہیں آتا۔ بطور بی او آئی چیئرمین ان کا تجربہ ہے کہ مقامی اور غیر ملکی پرانے اور نئے سب سرمایہ کار مزید سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بیورکریسی مقامی اور غیر ملکی سب سرمایہ کاروں کو دفاتر کے چکر ہی لگواتی رہتی ہے اور ان کے ہاتھ پکڑنے اور مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسائل کو بڑھایا جاتا ہے۔ نتیجتاً سرمایہ کار اس قدر زچ ہوجاتا ہے کہ وہ پاکستان کے علاوہ کہیں اور سرمایہ کاری کو ترجیح دیتا ہے۔
اگر چھ سے سات ملکوں اور چند صنعتوں پر توجہ دی جائے تو ہر ملک سے کئی ارب ڈالر سالانہ کی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔ اس کےلیے ایک ایکو سسٹم بنانا ہوگا۔ مگر ہمارے ملک میں سالانہ تین ارب ڈالر سے بھی کم غیر ملکی سرمایہ کاری آتی ہے۔ اس وقت پوری حکومت آئی ایم ایف کے چند ارب ڈالرز کےلیے پریشان ہے۔ حکومت کے کام کرنے کے طریقہ کار پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک تو باہمی تعاون کا ماحول نہیں ہے۔ ایک وزارت دوسری وزارت سے اور ایک ادارہ دوسرے ادارے سے تعاون کو تیار نہیں۔ سارا کام ایڈہاک ازم پر چلتا ہے۔ اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سرمایہ کاری کی جگہ بیرونی امداد یا قرض مل جائے۔
نجکاری کے حوالے سے بھی پاکستان میں خوامخواہ ایک سازشی نظریہ اجاگر کیا گیا ہے۔ نجکاری کمیشن اور نظام میں موجود رکاوٹیں ملکی بیمار صنعتوں اور اداروں کی نجکاری میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ملکی اندرونی سیاسی مسائل میں سرمایہ کار کو گھسیٹنا درست نہیں۔ اظفر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب ایک کیس اسٹڈی ہے۔ اس وقت سعودیہ کا پبلک سرمایہ کاری فنڈ دنیا کا تیسرا بڑا فنڈ ہے۔ وہ پوری دنیا میں پیسہ لگا رہا ہے۔ محمد بن سلمان نے اپنے تمام سرکاری اداروں اور نجی شعبے کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہدایت کی ہے۔ سعودی سرمایہ کاری کی وزارت نے ساڑھے پانچ ماہ میں 18 اجلاس کیے اور وہ آرمکو کی ریفائنری لگانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو زرعی شعبے اور فوڈ سیکیورٹی میں اپنا شراکت دار بنانے کے خواہش مند ہیں۔ سعودی عرب 8 شعبہ جات میں تیار منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ مگر حکومت تبدیل ہوگئی اور بات وہیں کی وہیں رہ گئی، کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اور اب یہ سعودی عرب کا دردِ سر بن گیا ہے کہ پاکستان میں چیزوں کو حتمی شکل نہیں دی جاتی۔ پاکستانی سفیر جو بھی سرمایہ کاری کی فائل بھجواتا ہے وہ پاکستان سے واپس سعودی عرب جاتی ہی نہیں۔ اور سکریٹریٹ کی گرد میں کہیں دفن ہوجاتی ہے۔ چین و بھارت کے علاوہ دیگر چھوٹے ممالک سعودی عرب میں تیار منصوبے لاتے ہیں اور سرمایہ کاری کی منظوری مل جاتی ہے۔ سعودی عرب پاکستان کو اپنی فوڈ سیکیورٹی کا شراکت دار بنانا چاہتا ہے۔ سعودی عرب ایک خصوصی زرعی زون قائم کرنا چاہتا ہے، جس کےلیے بلوچستان میں زمین کی بھی نشاندہی کردی ہے۔ مگر اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہورہی۔
چین کے ساتھ حکومتی بنیادوں پر خصوصی معاشی زونز بنانے کا کام کرنا چاہیے کیونکہ چین 22 ملکوں میں خصوصی معاشی زونز حکومتی شراکت داری میں بناچکا ہے۔ اور اگر چین یہ کام کرتا ہے تو پاکستان کی معیشت کےلیے یہ گیم چینجز ہوگا۔ چین بہت بڑی حقیقت ہے۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے چائنا ڈیسک سرمایہ کاری بورڈ میں ہے، تو سی پیک اتھارٹی الگ سے قائم ہے۔ اب چینی سرمایہ کار دفتر دفتر ہی گھومتا رہے گا۔ سی پیک ایک موقع ہے۔ اس میں خصوصی معاشی زونز جلد از جلد مکمل کیے جائیں، بصورت دیگر ہم بہت کچھ گنوا دیں گے۔
آخر ان تمام مسائل کا حل کیا ہے؟ کیا نئے انتخابات اس کا حل ہوسکتے ہیں؟ اظفر احسن اس پر بھی متفق نہیں، کیونکہ 98 فیصد پارلیمنٹ انہی لوگوں پر مشتمل ہوگی جو کہ اس وقت ممبر ہیں۔ اظفر احسن کہتے ہیں کہ پاکستان کو قازقستان اور ازبکستان کے ماڈل کو اسٹڈی کرنا چاہیے اور اس پر پاکستان میں عملدرآمد کرانا چاہیے۔ پاکستان میں وزیراعظم آفس میں قابل اور اہل افراد کو سرمایہ کاری کے معاملات کی ذمے داری دی جائے تاکہ وہ بہتر فالو اپ کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کا ماحول بناسکیں۔