مار گئی ہمیں یہ مہنگائی!

’’بس آخری اشتہار رہ گیا، مجھے معلوم ہے کیا جواب ملے گا‘‘ اخبار دیکھتے ہوئے اس نے خودکلامی کی۔
’’مجھ سے بہتر تو زین رہا، خوشحال ہے، لگتا ہے اچھی جاب ملی ہے۔‘‘ اس نے اپنے کلاس فیلو کو یاد کیا۔
’’فائدہ ایسی ڈگری کا، ماسٹرز کرنے سے بہتر تھا میں مزدور بن جاتا۔‘‘
سخت چلچلاتی دھوپ میں اس کی بائیک ٹریفک جام میں پھنسی تھی۔ ٹریفک سگنل پر تیسری جنس کا نمائندہ تالیاں بجا کر بھیک مانگ رہا تھا۔ اس کی نگاہیں ہیجڑے سے ٹکرائیں۔
’’زین…؟‘‘ ایک کرب انگیز کراہ اس کے لبوں سے خارج ہوئی، اور آنکھیں بھر آئیں۔

ایک دہائی قبل لکھی گئی اپنی یہ مختصر سو لفظی کہانی ہمیں پھر یاد آگئی جب آج ایسی ہی ایک خبر نظر سے گزری۔ خبر لاہور میں خواجہ سراؤں کے ساتھ لڑکی کا بھیس بدل کر بھیک مانگنے والے گیارہ سالہ لڑکے زین کی ہے۔ زین کے والدین ذہنی معذور ہیں اور اپنے بچوں کی پرورش سے قاصر ہیں۔ زین اپنے والدین کی دیکھ بھال اور معاش کے لیے یہ کام کرنے پر مجبور ہوا۔ زین کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔ یعنی کسی کی غربت اور مجبوری کا مداوا کیے بغیر اس کا ’’روزگار‘‘ چھین لیا گیا۔

صرف ایک زین ہی نہیں، اسی قبیل کے کئی کردار روز نگاہوں کے سامنے سے گزرتے ہیں جو اپنی مجبوریوں، غربت اور ملک میں بڑھتی ہوشربا مہنگائی کے باعث ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ بھیک مانگنا کوئی قابل ستائش عمل تو نہیں، لیکن پیٹ بھرے لوگوں کے نزدیک کسی کی مجبوری صرف عذرِ لنگ ہوتی ہے۔ جب تک کوئی خود اس کرب اور تکلیف سے نہ گزرے وہ دوسروں کی مجبوریوں کو بھی تنقید کا نشانہ ہی بناتا ہے۔ بھیک مانگنے یا بقول معترضین یہ ’’قبیح فعل‘‘ سرانجام دینے کے بجائے ’’مزدوری کرلیتا‘‘ وغیرہ وغیرہ جیسے مشورے گھڑے جاتے ہیں۔ لیکن ملک کی اس وقت جو معاشی صورتحال ہے اس میں تو ایک غریب مزدور کے گھر کا چولہا بھی بجھ چکا ہے۔ ملک میں غربت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ لوگ اپنے بچے بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ایسی ہی ایک تصویر نے روح تک کو لرزا کر رکھ دیا جس میں ایک ماں اپنی بچی کے ساتھ ’’بیٹی برائے فروخت‘‘ کا کارڈ اٹھائے کھڑی ہے۔

ملک میں غربت کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور حکومت کی ’’شوبازیاں‘‘ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ اس پر مستزاد عوام پر ایک اور ’’پٹرول بم‘‘ گرادیا گیا ہے۔ اور اس بار دس بیس روپے نہیں بلکہ پٹرول کی قیمت میں پورے 35 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ پٹرولیم کی قیمتوں میں یہ ریکارڈ اضافہ مزید مہنگائی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ عوام کو سہولت دینے کےلیے اشرافیہ کی عیاشیاں ختم کردی جاتیں۔ حکومت کے مشکل فیصلوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر یہ استہزائیہ پوسٹیں بھی گردش میں ہیں کہ ’’اگر واقعی مشکل فیصلہ کرنا ہے تو ملک میں کسی کو بھی ایک لیٹر پٹرول، نہ ہی ایک یونٹ بجلی مفت ملے۔ پلاٹس واپس، پروٹوکول و دیگر الاؤنسز ختم، یہ ہے مشکل فیصلہ۔ جنھوں نے ملک کو لوٹا ہے ان کی جائیدادیں نیلام کرکے قومی خزانے میں ڈالو، یہ ہے مشکل فیصلہ۔ پٹرول مہنگا کرنا تو سب سے آسان فیصلہ ہے جو آپ نے فوراً کرلیا‘‘۔

معیشت کی بحالی کے لیے جو وزیر خزانہ بہت زور و شور سے واپس لایا گیا اُن کے مطابق ’’حکومت کے پاس معاشی بحران حل کرنے کےلیے کوئی جادو کی چھڑی نہیں‘‘۔ یہ بات تو عوام بھی جانتے ہیں، ملک کے حالات جادو کی چھڑی سے نہیں بلکہ اصلاحات اور درست پالیسی سے ہی تبدیل کیے جاسکتے ہیں لیکن اس جانب بھی تو پیش رفت نہیں کی جارہی۔ صرف عوام پر ہی زور چل رہا ہے لیکن عوام پر یہ جبر بھی اپنی حدیں پار کرچکا ہے۔ ’’پاکستان کی معاشی ترقی اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے‘‘ جیسے بیان دینا وزیرخزانہ کو زیب دیتا ہے؟

عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ صرف عوام سے ہی کیوں قربانی مانگی جاتی ہے؟ اس ملک کے امرا اور اشرافیہ کیوں قربانی نہیں دیتے۔ حکومت اور اپوزیشن میں شامل وزرا اپنی عیاشیاں کیوں ختم نہیں کرتے؟ ایوان و عدلیہ میں بیٹھے افراد کا پروٹوکول ختم کیوں نہیں کیا جاتا؟ آخر کب تک عوام ہی بوجھ اٹھاتے رہیں گے، قربانیاں دیتے رہیں گے؟

وزیراعظم پاکستان اپنے نمائشی بیانات میں کہہ تو رہے ہیں کہ ’’میں اپنی ساری سیاسی کمائی پاکستان کےلیے قربان کرنے کو تیار ہوں، ملک و قوم کو مشکل حالات میں تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ قربانی کب دی جائے گی؟ ایک طرف قربانی کی باتیں اور دوسری جانب عمل یہ ہے کہ حکومت نے عیاشیوں کےلیے 135 بی ایم ڈبلیو گاڑیاں منگوانے کی اجازت دے دی۔ وزیراعظم پاکستان سے گزارش ہے کہ ’’شوبازیاں‘‘ ختم کرکے عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں۔ عوام کا دل صرف باتوں سے نہیں بہلائیے بلکہ حقیقی ریلیف فراہم کیجیے۔ ان پالیسیوں اور سوچ کو ترک کیجیے جس کی وجہ سے آج عوام کو یہ برے دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔ قربانیاں صرف عوام سے نہ مانگیے بلکہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی اشرافیہ اور بالائی طبقے کا تمام تر پروٹوکول، سیاستدانوں اور بڑے سرکاری افسران کی مراعات کا خاتمہ کرکے ملکی خزانے سے بوجھ کم کیا جائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں