بھارتی مظالم کے خلاف دنیا کا محکوم کشمیروں سے اظہار یک جہتی

٭دُنیا بار ہا بھارت کے اس بے بُنیاد دعوے کو مسترد کر چکی ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔

بھارت کے اپنے اپوزیشن لیڈر آرٹیکل370کی منسوخی کو آئین پر حملہ، تباہ کُن اور بھارتی ریاستی تاریخ کا سیاہ ترین باب قرار دے چکے ہیں۔

بھارت کے اس اقدام سے کشمیر ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر اُبھر کر سامنے آگیا ہے۔

بھارتی اقدامات اقوامِ متحدہ کی اٹھارہ قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔

جموں وکشمیر پیلپز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ آپ ایک خیال کو قید نہیں کر سکتے بلکہ ایک اچھے خیال کا مقابلہ صرف ایک بہتر خیال ہی کرسکتا ہے۔

جب اختلاف رائے کے حق کو زبردستی کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو لوگوں کو دیوار سے لگائے جانے کا احساس ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں مزید اختلاف اور بیگانگی بڑھتی ہے۔محبوبہ مفتی

کشمیری رہنماعمر عبداللہ نے کہا کہ مُودی کے اقدامات ہمارے وطن کو ہندو وطن ثابت کرنا چاہتے ہیں جو کہ بھارتی آئین کے سراسر منافی ہے۔ ہم کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کروائیں گے۔

اب کشمیر اور پنجاب سمیت بھارت کے مختلف علاقوں میں آزادی کے نعرے بُلند تر ہوتے جا رہے ہیں۔ آج دُنیا کے ایوانوں میں کشمیری عوام کے حق میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔

اگست 2019سے اب تک عالمی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارت کے انسانیت سوز اور غیر جمہوری اقدامات کی مذمت کرتا آرہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینٹو نیو گوتریس نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کے نتائج خطے اور دُنیا کے لئے تباہ کُن ہونگے۔

اس کے علاوہ Genocide WatchاورHuman Rights Watchکی کشمیر میں جاری نسل کُشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر مبنی رپورٹس بھی ناقابلِ تردید دستاویزات ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے کشمیر کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے بھارت کے کمزور وفاقی ڈھانچے کو کاری ضرب لگا دی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے اس غیر آئینی اقدام کوIndia’s Dark Moment in Kashmirقرار دیا۔

دی گارڈین نے اسے کشمیر کو انڈین کالونی بنانے کی کوشش سے تعبیر کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ برطانوی پارلیمان کے ارکان نے بھی مقبوضہ کشمیر میں جاری قتل و عام اور عورتوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی بھرپور مذمت کی۔معزز اراکین نے کہا کہ ستر سال سے زیادہ عرصے سے کشمیری ایک جہنم میں رہ رہے ہیں اور آج حقِ خود ارادیت تو درکنار ان کا اپنا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ برطانوی پارلیمان کے ممبران نے کھل کر بھارتی ریاستی دہشتگردی کے خلاف اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے حق میں آواز اُٹھائی۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی وفاقی حکومت ریاستوں کے مقابلہ میں یونین کے علاقوں کو کم خود مختاری دیتی ہے۔کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیلئے مقامی آبادی اور سیاستدانوں سے مشورہ نہیں کیا گیا۔

بھارتی اسکالر ننوت چڈھا بہیرا نے کہا کہ بھارت میں جمہوری اصولوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔

نوبل انعام یافتہ امریتہ سین نے این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ جمہوریت کے بغیر بھی کشمیر کی کوئی قرار داد ہوگی کیونکہ یہ جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ ہو گی۔ ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے اس بات پر فخر نہیں ہے کہ بھارت نے جمہوری اصول کو ہندوستان میں رائج کرنے کے بعد کہ جہاں وہ دُنیا بھر میں جمہوریت کیلئے جانا جانے والا ملک تھا لیکن اب ہم وہ ساکھ کھو چکے ہیں۔ امریتہ سین نے جموں و کشمیر کی مرکزی قیادت کو نظر بند رکھنے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ کشمیر کے قائدین اور عوام کے نقطہ نظر سنے بغیر بھی انصاف حاصل کیا جا سکے گا۔

مسٹر شرما کا کہنا ہے کہ میں بھارتی قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ کشمیر کو آج آزاد کر دیا ہے کیونکہ جو معاہدہ تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔

معروف آسٹریلین کالم نویس سی جے ورلیمن نے اپنے ایک ٹویٹ میںکہا کہ مسلسل ظلم و ستم اور تناؤ کے باعث بالغ کشمیری دماغی امراض کا شکا ر ہو چکے ہیں۔ جن متنازع علاقوں میں سیکورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں جنسی تشدد کی شرح سب سے زیادہ ہے ان میں مقبوضہ کشمیر بھی شامل ہے۔

جموں وکشمیر کیلئے رائے دینے والے ٹوئیٹر اور فیس بُک کے صارفین کے اکاؤنٹس معطل کئے گئے۔

بھارت کی طرف سے بہیمانہ اقدام کی بدترین مثال اس وقت منظر عام پر آئی جب بُرہان وانی کی رائے کو ٹوئیٹر اور فیس بُک سے ہٹا کر اکاؤنٹس کو معطل کیا گیا۔

نیلم کماری کی موت بھارتی ریاست کے ناکام ہیلتھ سسٹم پر ایک سوالیہ نشان ہے جبکہ ایسی بہت سی خواتین حید ر آباد اور کشمیر میں بھی مر رہی ہیں۔

نواب آف جونا گڑھ نے بھی ہندوستان کا اصلی چہرہ بے نقاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان دراصل منافقانہ، دوہرے معیار، اقلیتوں اور بُنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا نام ہے۔ بھارت کے تمام تر ناکام کوششوں اور ڈراموں کے باوجود دُنیا بخوبی جان چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ بین الاقوامی قانون کی یوں دھجیاں اُڑانے والے بھارت کا مکروہ چہرہ اب دُنیا کے سامنے کھل کر آ چکا ہے۔

ای ۔یو ۔ڈس انفو لیب کی چشم کُشا رپورٹ نے بھارت کے عالم گیر پروپیگنڈے کو بری طرح بے نقاب کیا۔

موجودہ علاقائی اور عالمی صورتحال کے تناظر میں5 فروری2022کو دُنیا بھر میں کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے زبردست مظاہرے دُنیا کو ایک بار پھر باور کرائیں گے کہ سات دہائیوں سے حل طلب یہ بین الاقوامی مسئلہ ایک انسانی اَلمیہ ہے اور علاقائی اور عالمی امن و استحکام کیلئے سنگین خطرہ ہے۔

مغربی دارلحکومتوں میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کی جارہی ہے اور کشمیر کے محکوم عوام کے حقوق کی مسلسل پامالی کے خلاف اب مزید زور دار اور مؤثر آوازیں اُٹھیں گی۔

مقبوضہ کشمیر کے المیے پر دنیا کا عدل پر مبنی رد عمل یقیناً قابل قدر ہے لیکن اس سے بھارت کا رویہ نہیں بدلے گا، نہ عالمی برادری اس حد تک جائے گی کہ بھارت اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہو۔ کشمیر کو آزاد کرانے کی ذمہ داری پاکستان پر ہی عائد ہوتی ہے اور ہمیں ہی مظلوم کشمیریوں کی داد رسی کے لئے آگے آنا ہو گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں