سفرِ معراج؛ واقعات و مشاہدات

ماہ رجب المرجب اسلامی تقویم کا ساتواں مہینہ ہے۔ اس مہینے کا آغاز ہوتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے:
’’اللّٰہم بارک لنا فی رجب و شعبان وبلغنا رمضان۔‘‘ (بیہقی)
ترجمہ: ’’یااللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں (خصوصی) برکت عطا فرما اور ہم کو رمضان کی آمد تک خیریت کے ساتھ رکھ۔‘‘

اس بنا پر یہ مہینہ اہل ایمان کےلیے خوشی و مسرت کا موجب ہے کہ اس کے آتے ساتھ ہی رمضان کے مبارک مہینے کی منزل قریب نظر آنے لگتی ہے اور ہر مومن اس مہینے کی تیاری کےلیے پُرجوش ہوجاتا ہے۔ یہ مہینہ دو مزید وجوہات سے خصوصیت کا حامل ہے۔ ایک تو اس کا شمار حرمت والے ان چار مہینوں میں ہوتا ہے جو زمانۂ جاہلیت میں بھی اہلِ عرب کے نزدیک محترم سمجھے جاتے تھے اور ان مہینوں میں جنگیں، لڑائیاں وغیرہ سب ممنوع ہوتا تھا۔ یہ چار ماہ رجب المرجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام ہیں۔ نیز ماہ رجب کی عظمت کی دوسری وجہ جو اسے باقی تمام مہینوں سے ممتاز کردیتی ہے، یہ ہے کہ اس مبارک مہینے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو معراج کرائی تھی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسے تمام نبیوں کے سردار ہیں، ایسے ہی آپ کا دین بھی تمام ادیان پر فوقیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری دین اسلام کی حقانیت کو مبرہن کرنے کےلیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو معجزے بھی ایسے عطا فرمائے جو آپ کی عظمت کا پھیریرا صرف اس جہاں میں نہیں بلکہ تمام جہانوں میں لہرادیں۔ ان معجزات جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے (بحوالہ: ’’ ترجمان السنۃ‘‘) ان میں ایک تو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ’’قرآن کریم‘‘ ہے جو اپنے نزول سے آج تک ہر دور میں زندہ تابندہ معجزہ چلا آرہا ہے اور دوسرا معجزہ جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سرِعرش سربلند کردیا ’’معراج‘‘ ہے۔

معراج کا واقعہ قرآن کریم میں دو مقامات پر مذکور ہے۔ ایک سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کریمہ میں اور دوسرا سورۂ نجم کی ابتدائی آیات کریمہ میں۔ نیز سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 60 بھی اس واقعے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 45 صحابہ کرامؓ نے واقعہ معراج کی تفصیلات کو بیان کیا ہے، جن میں حضرت عمر فاروقؓ، حضرت علی المرتضیٰ ؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت انسؓ، حضرت حذیفہ بن یمانؓ، حضرت ابوذر غفاری وغیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ایسے جلیل القدر اصحاب رسول شامل ہیں۔ نیز تابعین عظام میں سے سعید بن جبیر، ضحاک، قتادہ، ابن مسیب، حسن بصری، ابراہیم نخعی، مسروق، مجاہد، عکرمہ اور ابن شہاب رحمہم اللہ تعالیٰ ایسے مفسرین، محدثین اور فقہائے امت بھی واقعۂ معراج کے راوی ہیں۔ بلکہ اس معراج کا تذکرہ تو پہلے انبیا کے صحیفوں میں بھی ملتا ہے۔

مؤلفِ ’’ترجمان السنۃ‘‘ حضرت مولانا سیّد محمد بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی نوراللہ مرقدہ، شیخ الاسلام علامہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت دانیال علیہ السلام نبی اللہ نے کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ بنی اسرائیل کا حال مجھ سے بیان فرمائیے تو اس نے ان کے حالات بیان فرمادیے، یہاں تک فرمایا کہ میں بنی اسماعیل میں ایک نبی اٹھاؤں گا جس کی بشارت میں نے حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا کو دی، پھر اس نبی کی صفات ذکر کیں، یہاں تک فرمایا کہ میں شب میں اس کو بلاؤں گا اور اس کو اپنے قریب کرکے اس پر صلوٰۃ وسلام بھیجوں گا اور اس کو وحی کے ذریعے اسرارپنہاں سے آگاہ کروں گا، اس کے بعد شاداں و فرحاں اپنے بندوں کے پاس اس کو پھر واپس کروں گا۔ اس کے بعد حضرت دانیال علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا قصہ ذکر فرمایا۔ (’’الجواب صحیح‘‘ بحوالہ: ’’ترجمان السنۃ‘‘ ، ج:۳، ص:۴۵۸)

چنانچہ قرآن کریم، سنت نبویہ اور انبیاء سابقہ علیہم السلام کی تصریحات کی روشنی میں واقعۂ معراج ہمارے سامنے یوں نکھر کر آجاتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب اہل مکہ کی تکذیب سے مضطرب ہوکر طائف تشریف لے گئے تاکہ اہل طائف کو ایمان کی دعوت دی جائے، مگر ان کے ستانے، ظلم و ستم اور جھٹلانے سے کبیدہ خاطر آپ واپس مکہ مکرمہ تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تسلی و تالیف قلب کے لیے آپ کو اپنی ملاقات کےلیے یاد فرمایا۔ یہ سال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کےلیے عام الحزن تھا، کیونکہ آپ کے محبوب چچا اور آپ کے سرپرست اور ظاہری اسباب میں مضبوط پشت و پناہ جناب ابو طالب اور آپ کی زوجہ مطہرہ، اسلام کی پہلی فرد، نبوت کی پہلی مددگار، آپ کی ہمدرد و غمگسار، آپ کو دلاسہ دے کر پہلی وحی کا بارگراں ہلکا کرنے والی ام المؤمنین سیدۃ المسلمین حضرت خدیجۃ الکبریٰ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا رحلت فرمائے عازم آخرت ہوچکے تھے۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کے غموں کو ہلکا کرنے اور جھٹلانے والے مشرکین و کفار کی نگاہ میں سربلند کرنے کےلیے آپ کو سر عرش اپنا مہمان بنایا۔

نبوت کے تیرہویں سال جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عمر مبارک 52 برس تھی، رجب کی 27 تاریخ بدھ کی شب کو یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ اپنی چچازاد ہم شیر، حضرت ابو طالب کی دختر اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خواہر حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں آرام فرما تھے۔ حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بتایا کہ میرے پاس ایک فرشتہ آیا، اس نے میرا پیٹ چاک کرکے میرا دل باہر نکالا اور اسے ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے سونے کی طشت میں رکھ کر آبِ زمزم سے دھویا، پھر دل اس کی جگہ واپس رکھ دیا۔ اس کے بعد حضرت جبرائیل امین علیہ السلام سفید رنگ کا ایک جانور جو خچر سے کچھ چھوٹا اور گدھے سے ذرا بڑا تھا، لے کر حاضر خدمت ہوئے، یہ براق تھا جو اس قدر سبک رفتار تھا کہ جہاں تک انسانی نگاہ کی حد ہوتی ہے وہاں اس کا ایک قدم پڑتا تھا۔ براق پر سوار ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سفر معراج پر روانہ ہوئے۔ دورانِ سفر آپ کا گزر یثرب پر ہوا، یہاں آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے کہنے پر نماز ادا کی، یہی جگہ بعد میں آپ کا مسکن ٹھہری، جب آپ ہجرت فرماکر یہاں تشریف لائے اور یثرب کے بجائے ’’مدینۃ النبی‘‘ کہلائی اور اب یہی مقام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مدفن اور مہبط انوار و کرم ہے۔ پھر آپ مدین، بیت اللحم اور کوہِ طور سے بھی گزرے اور ان مقامات پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نماز ادا فرمائی۔ مدین اور کوہِ طور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اور بیت اللحم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مولَد ہونے کی وجہ سے باعث شہرت ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بیت المقدس پہنچے اور براق کو اس کھونٹے سے باندھا جس سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ یہ جگہ ’’بابِ محمد‘‘ کہلاتی ہے۔

بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) میں حضرت آدم تا حضرت عیسیٰ علیہم السلام تمام انبیاء و رسل جمع تھے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر مصلّے پر کھڑا کردیا۔ آپؐ نے نماز پڑھائی اور یوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ’’امام الانبیاء‘‘ کے منصب نشین ہوگئے۔ نماز کے بعد جب فرشتوں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ یہ کون ہستی ہیں؟ تو حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تعارف بایں الفاظ کرایا: ’’یہ محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘ (بحوالہ نشرالطیب از حضرت تھانویؒ)
گویا معراج کے اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعلان ہوگیا۔ تمام انبیاء و رسل کا آپ کے پیچھے نماز پڑھنا بھی اس امر کی دلیل ہے کہ آپ کے بعد نبی کوئی نہیں، اگر ہوتا تو بیت المقدس میں صفِ انبیاء میں شامل ہوتا۔

نماز سے فارغ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے ملاقات کی، اس کے بعد بعض انبیاء نے خود پر ہونے والے انعامات خداوندی کا ذکر کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آتش نمرود کے ٹھنڈا ہوجانے، ’’خلیل اللہ‘‘ کے شرف سے مفتخر ٹھہرنے، دعائے امامت قبول ہونے کا تذکرہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورات کے نزول، فرعون کی ہلاکت و بنی اسرائیل کی آزادی، ’’کلیم اللہ‘‘ کا لقب پانے کا اعزاز بیان فرمایا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی گفتگو میں عظیم الشان بادشاہی، زبور کا علم، لوہا نرم ہونا، پہاڑوں اور پرندوں کا لحنِ داؤدی سن کر مسحور ہونا بتایا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا، جنات کے مسخر ہونے، چرند و پرند کی بولی اور ایسی سلطنت ملنے پر خدا کا شکر ادا کیا جو ان کے بعد کسی کو نہیں ملنی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سلسلۂ کلام میں خود کے ’’کلمۃ اللہ‘‘ ہونے، حضرت آدم علیہ السلام کے مثل ہونے، بے جان میں روح پھونکنے، جذامی و اندھے کو صحت یاب کردینے، شیطان مردود سے اپنے اور اپنی والدہ بی بی مریم سلام اللہ تعالیٰ علیہا کے محفوظ ہونے اور انجیل عطا ہونے پر خدا کے احسانات گنوائے۔

آخر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی تقریر میں ارشاد فرمایا: آپ سب نے اپنے رب کی حمد و ثنا کی، میں بھی اپنے رب کی تعریف بیان کرتا ہوں، تمام تعریفیں اس خدا کےلیے ہیں جس نے مجھے رحمۃ اللعالمین اور تمام لوگوں کےلیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا اور مجھ پر قرآن مجید فرقانِ حمید نازل فرمایا اور میری امت کو ایسا بنایا کہ وہ (رتبہ کے اعتبار سے) اول بھی ہے اور (دنیا میں آنے کے لحاظ سے) آخر بھی ہے۔ اور میرے سینے کو فراخ فرمایا اور میرا بار مجھ سے ہلکا فرمایا اور میرے ذکر کو بلند کردیا اور مجھ کو سب کا شروع کرنے والا اور سب کا ختم کرنے والا بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خطاب کے بعد ابوالانبیاء خلیل اللہ سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تمام نبیوں کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فضیلت کا اعتراف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’آپ ان بیان کردہ کمالات کی وجہ سے تمام انبیاء پر سبقت لے گئے۔‘‘

بیت المقدس سے باہر تشریف لانے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کی خدمت میں دو یا تین پیالے پیش کیے، ایک دودھ کا، دوسرا شہد کا اور تیسرا شراب کا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کا پیالہ پسند فرمایا۔ اس انتخاب پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: ’’آپ نے فطرت کو پسند کیا۔‘‘
مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) کا یہ سفر قرآن کریم کی اصطلاح میں ’’اسراء‘‘ کہلاتا ہے۔ اسراء کا معنی ہے: ’’رات کے وقت سفر کرنا‘‘۔ اسی سفر کو قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ بیان کرتی ہے:

’’سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْر۔‘‘ (بنی اسرائیل:1)
ترجمہ: ’’پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کو رات ہی رات ادب والی مسجد سے پرلی مسجد تک جس میں ہم نے خوبیاں رکھی ہیں کہ دکھاویں اس کو کچھ اپنی قدرت کے نمونے وہی ہے سنتا، دیکھتا۔‘‘ (ترجمہ موضح القرآن، شاہ عبدالقادر دہلویؒ)

یہ سفر معراج کا پہلا مرحلہ تھا جو مسجد حرام سے شروع ہوکر بیت المقدس تک طے ہوا۔ اس کے بعد سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو لے کر آسمانوں پر چڑھنا شروع ہوئے۔ آسمانوں پر ہمارے آقا و مولا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب تشریف لے گئے ہیں تو ہر ہر آسمان پر باقاعدہ دستک دی جاتی، دروازہ پر مامور فرشتہ تعارف کرانے کو کہتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد کا سن کر پوچھتا کہ خدا کے حکم سے آئے ہیں یا خود تشریف آوری ہوئی ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر سوال کا جواب دیتے، نام بتاتے، خدا کا حکم سناتے تو دروازہ کھلتا، اجازت ملتی، خوش آمدید کہا جاتا، اندر تشریف لے جاتے ہی جو بھی نبی وہاں تشریف فرما ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انہیں سلام کرتے، وہ سلام کا جواب دیتے اور مرحبا کہتے۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم، دوسرے پر حضرت یحییٰ و عیسیٰ، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف، چوتھے پر حضرت ادریس، پانچویں پر حضرت ہارون، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ اور ساتویں پرحضرت ابراہیم سے ملاقات ہوئی (علیہم الصلوٰۃ والسلام)۔ یہ قصہ تفصیل کے ساتھ بخاری و مسلم کی طویل روایتوں میں مروی ہے۔

ساتویں آسمان کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ کی طرف لے جایا گیا۔ یہ وہ مقام ہے جو حدِّ فاصل اور آخری حد و انتہا کہلاتا ہے، یعنی نیچے سے آنے والے اس جگہ سے اوپر نہیں جاسکتے اور اوپر سے آنے والے اس سے نیچے جانے کی اجازت نہیں پاتے۔ ’’سدرہ‘‘ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں، مگر اسے دنیا کی بیری کی طرح نہیں سمجھنا چاہیے، یہاں محض نام کا اشتراک ہے، کیونکہ اس جہاں کی اشیاء اس دنیا کی آنکھ میں سمانے والی نہیں۔ سدرۃ المنتہیٰ کی جڑیں چھٹے آسمان میں پیوست ہیں اور پھیلاؤ ساتویں آسمان میں ہے۔ دنیاوی اعمال یہیں سے اوپر جاتے ہیں اور آسمانی احکام بھی ادھر ہی سے نیچے اترتے ہیں۔ سدرۃ المنتہیٰ پر فرشتوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی، چنانچہ سورۃ النجم میں ارشاد باری ہے: ’’اذ یغشی السدرۃ ما یغشیٰ‘‘ (النجم:16) ’’جب چھا رہا تھا اس بیری (کے درخت) پر جو کچھ چھا رہا تھا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے انوار و برکات اور تجلیات اور فرشتوں کا ہجوم اس جگہ کو گھیرے ہوئے تھا۔ اس درخت کے اردگرد سنہرے پروانے تھے جن سے حسن و جمال کا وہ منظر بنا ہوا تھا جس کی تصویر کشی ممکن نہیں۔

بخاری شریف کی روایت کے مطابق سدرۃ المنتہیٰ پر چار نہریں ہیں، دو اندر کی جانب جو جنت کو جارہی ہیں اور دو باہر کی جانب، جن کا رخ دنیا کی طرف ہے اور یہ نیل و فرات ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حوض کوثر دکھایا گیا جو ساتویں آسمان کی بالائی سطح پر ہے۔ یہ اس قدر صاف و شفاف ہے کہ اس میں یاقوت، زمرد اور موتیوں کے پیالے ہیں اور سبز رنگ کے پرندے وہاں چہچہاتے ہیں۔ اس کا پانی زمرد اور یاقوت کے سنگریزوں پر بہتا ہے، یہ پانی شہد سے زیادہ میٹھا، دودھ سے بڑھ کر سفید اور مشک سے فرو تر خوشبودار ہے۔ حوض کوثر کا پانی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم روزِ قیامت اپنے امتیوں کو پلائیں گے۔ خدا ہمیں بھی اس خوش بختوں میں سے کردے، (آمین!) اس کوثر کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور ایک مکمل سورۃ اس کے نام سے معنون ہے۔ ایک شاعر کرم حیدری مرحوم اپنی نعت میں کہتے ہیں:
حشر کا غم مجھے کس لیے ہو کرم
میرا آقا ہے وہ میرا مولا ہے وہ
جس کے دامن میں جنت بسائی گئی
جس کے ہاتھوں سے کوثر لٹایا گیا

حوضِ کوثر سے آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی، جنت کے خوش کن مناظر اور نعمتیں دکھائی گئیں۔ اس کے بعد آپ کو جہنم کی ہولناکی، اس کے دل دہلا دینے والے مناظر اور غضب خداوندی کے احوال دکھائے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المعمور کا مشاہدہ کیا جو عین خانہ کعبہ کے اوپر ساتویں آسمان پر قائم خدا کا گھر ہے۔ ہر روز ستر ہزار فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں اور دوبارہ کسی کی باری نہیں آتی۔ بیت المعمور دکھانے کے بعد حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے آگے چلنے سے معذرت کرلی اور عرض کی کہ مجھے اس سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ پروفیسر اقبال عظیم مرحوم کہتے ہیں:
محمد کی عظمت کو کیا پوچھتے ہو کہ وہ صاحبِ قاب قوسین ٹھہرے
بشر کی سرِ عرش مہماں نوازی یہ عظمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

شب معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بارگاہ الہٰی سے دو تحفے ملے، ایک سورۃ البقرہ کی آخری دو آیتیں اور دوسرا نماز کی فرضیت۔ اس وقت پچاس نمازیں فرض کی گئیں مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے پر کہ لوگ ادا نہیں کر پائیں گے، بار بار تخفیف کرائی گئی اور کم ہوتے ہوتے تعداد پانچ رہ گئی، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پانچ میں بھی تخفیف کرانے کی رائے دی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اب مجھے شرم آتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ارشاد ہوا کہ ہم ان پانچ نمازوں پر ثواب پچاس کا عطا فرمائیں گے۔ ’’من جاء بالحسنۃ فلہ عشرۃ امثالہا‘‘ کہ جو ایک نیکی لے کر آئے اس کو دس گنا بڑھا کر اجر ملے گا، قاعدہ خداوندی ہے۔

آج ہمیں معراج کے واقعے سے سب سے بڑا درس نماز کی پابندی کا لینے کی ضرورت ہے کہ جس واقعہ میں نماز پنج وقتہ فرض کی گئیں۔ اس عظیم الشان واقعے کی یاد تازہ رکھنے کےلیے ضروری ہے کہ جو بے نمازی ہے وہ پنج وقتہ نماز پڑھنے کا عہد کرلے، نماز پڑھنے والا باجماعت ادا کرنے کی فکر کرے اور باجماعت پڑھنے والا تکبیر اولیٰ پر مواظبت اختیار کرے۔ اس سے بڑھ کر واقعہ معراج کی کوئی یاد ہو ہی نہیں سکتی۔

بس اب درود پڑھ اس پر اور اس کی آل پر تو
جو خوش ہو تجھ سے وہ اور اس کی عترت اطہار
الٰہی! اس پر اور اس کی تمام آل پر بھیج
وہ رحمتیں کہ عدو کرسکے نہ ان کا شمار
(از: قصیدہ بہاریہ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں