اگر پاکستان نہ بنتا تو آج برصغیر کے مسلمان کس حال میں ہوتے
ڈاکٹر رفیق زکریا نے اپنے ایک تحقیقی مقالہ میں ہندوستان کے مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی کے بارے میں تحریر کیا جس میں انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ آئندہ سالوں میں ہندوستان کے مسلمان اقتصادی مسائل سے بہت زیادہ دوچار ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر زکریا محقق اور بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں وہ مہارا شٹر ریاست کے قانون دان بھی رہے اور مہاراشٹر گورنمنٹ میں پندرہ سال تک وزیر بھی رہے۔
لوک سبھا کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ اندرا گاندھی کے زمانے میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر بھی تھے۔ اُس وقت وہ اردو یونیورسٹی علی گڑھ میں چانسلر تھے۔ محترم اعلیٰ سطح کے محقق تھے۔ ڈاکٹر رفیق زکریا کے علاوہ ڈاکٹر ذاکر حسن، مولانا ابوالکلام آزاد، حسین احمد مدنی، خان عبدالغفار خان اور دیگر قومی سطح کے کانگریس اکابرین نے ہندوؤں کی تہذیب و ثقافت کو قریب سے دیکھا لیکن اپنی یعنی اسلام کی انفرادیت کو سمجھنے سے قاصر رہے۔
یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے قرار داد لاہور 23 مارچ 1940ء کو پاس ہوتے ہی ہندو لیڈروں کے ساتھ کانگریس کے پلیٹ فارم پر اس قرار داد اور مسلم لیگ کے رہنماؤں پر اعتراضات کئے تھے اور کہا تھا کہ اگر ہندوستان تقسیم ہوا تو مسلمانوں کی اقتصادی، اخلاقی، سماجی حالت بہتر ہوجائے گی۔
یہی وہ لوگ تھے جو تقسیم برصغیر کے وقت بہت سٹپٹائے اور قائد اعظمؒ کی بات کو اہمیت نہیں دے سکے۔ قائد اعظمؒ نے ہندوستان کی تقسیم کو ضروری قرار دیا۔ قائد اعظمؒ نے پیشگوئی کی تھی کہ مرکز میں ہندوؤں کی 70 فیصد ووٹوں کے حساب سے طاقت ہوگی اور مسلمان 30 فیصد ہوں گے۔
ہوسکتا ہے کہ کچھ کانگریس کے اثر میں آجائیں۔ مسلمان اور ہندو کے ووٹ کا اسمبلیوں میں تناسب 3.1 ہوگا۔ اس کے علاوہ ملازمت کے اعتبار سے نیوی، آرمی، ایئرفورس اور دوسری اہم جگہوں پر ہندو اسی حساب سے چنے جائیں گے۔
عملی طور پر ہندو مسلمانوں پر سبقت لے جائیں گے۔ کانگریس کے رائے دہندوں کی موجودگی زیادہ ہوگی اور مسلمانوں کی کم ہوگی۔ مرکزی انتظامیہ میں بھی ہندؤوں کی اکثریت ہوگی۔ مسلمان سکھ اور دوسرے لوگ خسارے میں رہیں گے۔ فوج میں جو لوگ شامل ہیں یا مرکز میں ہیں وہ عملی طور پر کم ہوجائیں گے۔
اس وقت ہندوستان کی برطانوی فوج میں 50 فیصد سے زیادہ مسلمان آفیسر تھے، جن کا تعلق جہلم‘ چکوال، ہزارہ، اٹک اور فرنٹیئر اضلاع سے تھا۔ بعد میں کانگریس ان جگہوں سے ڈیفنس فورس میں لوگ بھرتی کرے گی جہاں سے انہیں اکثریت حاصل ہوئی ہوگی۔
اسی طرح کانگریس کی اکثریت کی موجودگی میں مرکزی اور صوبائی وزراء زیادہ ہوں گے۔ مالیات، آبپاشی، زراعت، ذرائع آمدورفت، اطلاعات اور بیرونی معاملات سب کے سب پر ہندوؤں کا قبضہ ہوگا جو ہندوؤں کی اقتصادی پوزیشن کو مضبوط کریں گے اور مسلمان ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ مزید برآں مسلمان ہندوؤں کے تعصب کا شکار ہوجائیں گے۔
قائد اعظم نے اس بات کی نشاندہی بھی کی تھی کہ مسلمانوں کی مذہبی اقدار کی حفاظت ایک ہندوستان میں رہ کر نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کی ایک ثقافت ہے اور زبان اردو ہے۔ مسلمانوں کا ایک جُداگانہ نظریہ توحید ہے۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمان کسی طرح بھی ترقی نہیں کرسکیں گے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مسلمان سیاسی اور معاشی طور پر ہندوؤں کے دست نگر ہوجائیں گے اور ہندو ذات پات کے ذریعے مسلمانوں کو اور بھی دوسرے شعبوں میں پیچھے رکھیں گے جس صورت حال کا ذکر ڈاکٹر زکریا نے اب پیش کیا وہ قائد اعظمؒ ہی کی پیش گوئی ہے۔
ڈاکٹر زکریا اپنے تحقیقی مقالہ میں بیان کرتے ہیں کہ اس وقت تمام ہندوستان میں لولیول (Low Level) یعنی چھوٹی سطح پر مسلمانوں کی آسامیاں 6 فیصد ہیں جبکہ مسلمان آبادی کے حساب سے 12 فیصد ہیں۔ کسی بڑی پوسٹ پر مسلمان زیادہ نہیں ہیں۔ اقتصادی لحاظ سے کوٹہ، گرانٹیں، لائسنس کے حوالے سے بھی مسلمانوں کو بھارت میں پیچھے رکھا گیا ہے۔
حکومت ہند نے سرکاری ملازمین کے لیے جو مکان بنائے اس سہولت سے بھی مسلمانوں کو محروم رکھا۔ مسلمانوں کا اس میں حصہ 2.86 فیصد ہے۔ یہی حال انڈسٹریل اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ دکانیں، ٹیکسٹائل اور شوگر فیکٹریوں میں مسلمانوں کو سہولتیں کم دی گئی ہیں۔ ڈاکٹر زکریا افسوس کرتے ہیں کہ مایوس مسلم نوجوان اینٹی سوشل عوامل میں شامل ہو رہے ہیں۔
مسلمانوں نے 1977ء کے انتخابات میں جنتا پارٹی کو ووٹ دیئے تاکہ وہ مسلمانوں کے کچھ کام آسکے مگر مایوسی ہوئی۔ 1980ء میں اندرا گاندھی کو ووٹ کے ذریعے برسر اقتدار لائے۔ ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ مسلمانوں کی اقتصادی حالت کو بدلا جائے گا۔
کانگریس گورنمنٹ مسلمانوں کی اقتصادی حالت کو ضرور مستحکم کرے گی۔ اندرا گاندھی نے 1980ء میں ایک کمیٹی اقلیتوں کے اقتصادی مسائل اور ان کا حل تلاش کرنے کے لئے بنائی تھی۔ ڈاکٹر زکریا اس کے سربراہ تھے جبکہ گوپل سنگھ چیئرمین تھے۔
چار سالہ تحقیقی منازل طے کرنے کے بعد رپورٹ تیار ہوئی تو اس رپورٹ پر کسی نے توجہ نہ دی اور مسلمانوں کی حالت اندر ہی اندر کمزور ہوتی گئی۔ اندرا گاندھی نے آرڈر پاس کیا کہ ایسی تحقیق کو بند کردیا جائے اور ساتھ یہ لکھا کہ گزری ہوئی باتوں کا جائزہ لینا اچھی بات نہیں۔ اگر مسلمانوں کی حالت ابتر ہے تو بہتر ہونے کے لئے کیا طریقے ہیں وہ تحریر کریں۔
ڈاکٹر زکریا مسلمانوں کی بھیانک اقتصادی تصویر کو بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ معاشی نا انصافی ہے اور جان بوجھ کر مسلمانوں کی اقتصادی پوزیشن کو آہستہ آہستہ مزید کمزور بنایا جارہا ہے تاکہ وہ غریب سے غریب تر ہوں اور پریشانی میں زندگی گزاریں۔ ڈاکٹر زکریا جیسے لوگ جو پرانے کانگریسی ہیں۔ وزیر رہ چکے ہیں ان کی یہ خاص علم و فکر والی تجویزیں 1984ء سے لے کر آج تک مٹی کے ڈھیر کے نیچے پڑی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اقتصادی ناہمواری غلط فہمی نہیں بلکہ یہ ہندو کی اقتصادی سکیم کا حصہ ہے جو تقسیم ہند سے پہلے تھی۔ قائد اعظمؒ خود کانگریس میں رہے۔
انہوں نے بڑا وقت گزارا وہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے۔ انہیں جب اندرونی سازشوں کا علم ہوا تو انہوں نے کانگریس کو چھوڑ کر مسلمانوں کو جگانے کے لیے اپنی اولوالعزمی کا ثبوت دیا اور مسلم لیگ کی قیادت سے پاکستان حاصل کیا۔
1980ء میں گورنمنٹ آف انڈیا کے 230 جوائنٹ سیکرٹریز تھے جن میں صرف تین مسلمان تھے۔ 67 ایڈیشنل سیکرٹریز میں سے صرف ایک مسلمان تھا اور 54 سیکرٹریز میں سے صرف دو مسلمان تھے۔ اسی طرح 73 پبلک سیکٹرز میں 481 ڈائریکٹرز تھے جن میں سے صرف 5 مسلمان تھے۔
22 بینکوں میں 99 ڈائریکٹر تھے۔ ان میں سے دس مسلمان تھے۔ اب ان ساری باتوں کا وجود ہمیں قیام پاکستان تک لے جاتا ہے۔ قائد اعظمؒ نے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی صورتحال کا صحیح اندازہ لگایا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی بقا ایک علیحدہ مملکت میں ہے۔
مجھے بین الاقوامی ڈینٹل کانفرنس میں شرکت کرنے اور مقالہ پیش کرنے کے لیے مدراس جانا پڑا تھا۔ وہاں پر میں نے اپنا تحقیقی مقالہ پڑھا جو دانتوں کی حفاظتی امور کے بارے میں تھا۔ اس سیمینار میں ہندوستان کے مرکزی اور صوبائی سطح کے اور ریاستوں کے چوٹی کے محقیقین اور ڈینٹل سرجن آئے ہوئے تھے۔ کچھ ان میں اعتدال پسند تھے اور کچھ متعصب نظر آرہے تھے۔
میرا ایک طریقہ یہ ہے کہ میں کسی مقالے کو پیش کرنے سے پہلے مضمون سے مختلف پانچ سلائیڈز دکھاتا ہوں۔ سب سے پہلے جو سلائیڈ دکھائی جاتی ہے وہ ’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ کی ہوتی ہے۔ دوسری ’رب زدنی علما‘۔ تیسری سلائیڈ ’وعلکما مالم علم وکان فضل اللہ عظیما۔ ترجمہ اے نبی کریمؐ یہ علم ہم نے آپ کو دیا ہے، تمہارے پاس نہیں تھا، اللہ کا آپ پر بڑا کرم ہے۔
اس کے بعد چوتھی سلائیڈ میرے قائد کی ہوتی ہے جس کی رہنمائی میں ہم نے علیحدہ وطن حاصل کیا۔ پانچویں اور آخری سلائیڈ مملکت پاکستان کی ہوتی ہے جو جغرافیائی پوزیشن ظاہر کرتی ہے۔ ایسا کرنا میری ثقافت اور فکر اور نظم و ضبط کا حصہ ہے۔ آخری سلائیڈ دکھانے پر کچھ بھارتی ہندو پروفیسرز نے بگڑنے کی کوشش کی کہ پاکستان کی سلائیڈ میں کشمیر کا متنازعہ حصہ دکھایا گیا۔ مجلس میں خلل ڈالنے کی کوشش کی مگر چیئرمین نے معاملہ ٹھنڈا کیا۔ یہاں پر آل انڈیا پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ دہلی کے ڈین و پروفیسر ایس ایس سندھو بھی موجود تھے۔
جنہوں نے مجھے اپنے انسٹی ٹیوٹ میں آنے کی دعوت دی کہ میں بین الاقوامی سیمینار سے خاتمے پر جب دہلی آؤں تو ان کے انسٹی ٹیوٹ میں بھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ کے طلباء اور ڈینٹل ڈاکٹروں کو لیکچر دوں۔ میں نے حامی بھر لی انہوں نے مجھے فون نمبر دیا تاکہ میں اُن سے رابطہ کرسکوں چنانچہ دہلی میں آنے کے بعد میرا لیکچر رکھا گیا۔ شاید پہلا پاکستانی ہوں جس نے اتنے بڑے ادارے میں خطاب کیا۔
محمد رضا جنہوں نے برصغیر کی آزادی کے متعلق ایک بڑی عمدہ کتاب لکھی ہے ’’آزادی کی کیا قیمت ہے‘‘ وہ قائد اعظم کے شیدائی تھے۔ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہ رہے تھے۔ وہ سابق ممبر لیجسلیٹو اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔ میں ان سے ملنے گیا تاکہ ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کروں۔ وہ بڑے عمدہ انسان تھے۔
ان کو میں نے پیار کیا، ہاتھ چومے، ان ہاتھوں سے انہوں نے ایک اعلیٰ کتاب لکھی جو قائد اعظمؒ کی بڑائی بیان کرتی ہے۔ جس مسلمان پروفیسر نے مجھے مدراس مدعو کیا ہوا تھا وہ بھی ایک فلیٹ میں مقیم تھا۔ وہ پروفیسر ڈینٹل سرجن تھا۔ ان کے پاس چار کرسیاں بھی نہیں تھیں۔
ان کی کار دھکا سٹارٹ تھی۔ وہ مدراس میں واحد مسلمان پروفیسر تھے۔ اقتصادی طور پر وہاں مسلمان نہایت کمزور نظر آئے۔ مسلمانوں کا ایک کالج تھا، میں نے اظہار کیا کہ اس کالج میں جاکر نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ جب میں کالج پہنچا تو کالج کے پرنسپل عبدالودود خان کھڑے ہوگئے۔
میرا استقبال مسلمانوں کی سوچ کے خلاف ہاتھ باندھ کر کیا کہ ’’مہاراج آیئے‘‘۔ میں نے سلام کیا اور خواہش ظاہر کی کہ مجھے آپ کے کالج میں نماز پڑھنے کی سعادت چاہئے۔ انہوں نے مجھے جائے نماز پرنسپل آفس میں بچھا دی۔ نماز ادا کی، پرنسپل آفس بھی معمولی قسم کا دفتر تھا۔ مسلمان اساتذہ کے چہروں سے خوشی کی بجائے مایوسی ٹپک رہی تھی۔
میں نے کالج کی سیر کی، لیکچر روم لیبارٹری، لائبریری اور دفاتر دیکھے۔ سب کے سب غیر معیاری پائے گئے۔ مسلمانوں کے ہر کالج میں ایسا ہی حال ہے کیونکہ ہندو اکثریت کی جماعت کانگریس بجٹ بناتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے رقم کم رکھی جاتی ہے۔
بجٹ کی عدم ادائیگی یا کمی میں تعلیمی اداروں کی سب سرگرمیاں ختم ہوجاتی ہیں یا مدھم پڑ جاتی ہیں۔ میں نے کئی طلباء سے تبادلہ خیال کیا اور ان کے مستقبل کے بارے میں سوال کیے۔ سرکاری نوکری کے متعلق پوچھنا چاہا تو وہ جواب دینے سے قاصر رہے۔ ایک دوسرے کے منہ کو دیکھنے لگے۔
انہوں نے مختصر سی مایوسی کی آڑ میں مجھے بتایا کہ اگر ہم ایم اے کرلیں تو ہمیں معمولی سی نوکری بڑی کوشش کرنے کے بعد ملتی ہے۔ ہمارا راستہ ہر طرح سے ہندوؤں نے روک رکھا ہے۔ ہماری ترقی کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ اگر ہم کسی پرائیویٹ ادارہ میں نوکری کرنا چاہیں یا ٹیچر بننا چاہیں ہماری تعلیم ایم اے ہو تو تنخواہ ڈیڑھ سو روپے ماہانہ ملتی ہے اور اس کے برعکس ہندو ٹیچر کی تنخواہ ساڑھے سات سو روپے ہے۔
ہم نے اسی طرح جینا ہے۔ سرکاری ملازمت سے ہم مایوس اور بد دل ہیں کیونکہ کانگریس اور ہندو مہاسبھا مل کر سر توڑ کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو آسانی میسر نہ آئے۔ جس طرح ہندو اور انگریز نے مسلمانوں کے لیے سرکاری نوکری کے دروازے بند کررکھے تھے۔ ہندو کے مسلمہ اصول ہیں وہ ان پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہم ہمت سے ان حالات کا مقابلہ کررہے ہیں اور مشکلات کو ہم نے گلے لگایا ہوا ہے۔
جب میں دہلی پہنچا تو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ ایک وسیع ادارہ ہے۔ جس میں سارے ہندوستان کے دور دراز کے ڈاکٹر، ڈاکٹریٹ کی ماسٹر ڈگری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ صرف ایک مسلمان سارے انسٹی ٹیوٹ میں پروفیسر صدیقی تھا۔ ان سے میرا تعارف بطور پاکستانی سکالر کروایا گیا وہ گرم جوشی سے ملے۔ پروفیسر صدیقی سے باتوں باتوں میں یہ سوال پوچھا کہ آپ کے پاس کون سی کار (گاڑی) ہے؟ انہوں نے نہایت معصوم انداز میں کہا کہ ہمیں کار کی ضرورت نہیں پڑتی ہم بسوں میں سفر کرلیتے ہیں۔
دیکھئے پروفیسر کے مالی وسائل محدود ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے کار لینا نا ممکن ہے۔ ہمارے ہاں ایک ڈاکٹر کے ہار چار چار کاریں ہیں۔ مجھے لیکچر میں کوئی پوسٹ گریجویٹ مسلمان ڈاکٹر نظر نہیں آیا۔ ہندو اور سکھ ہی تھے جو مجھ سے سوال کرتے اور بات چیت کرتے رہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ مسلمانوں کی مالی حالت اتنی کمزور ہے کہ وہ کسی صورت میں تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔
جمنا کے کنارے دہلی میں ایک عزیز کے گھر ٹھہرنے کا اتفاق ہوا وہ فارن سروس میں آفیسر تھا۔ ان کا گھر ایک کمرے، برآمدے، ایک چھوٹا سے کچن دو انڈین ٹائپ بیت الخلا اور واش بیسن پر مشتمل تھا۔ سونے کے لیے یا تو وہ برآمدہ میں سوئیں یا پھر ہم۔ عام سی چارپائیاں اور ایک لکڑی کی کرسی ان کا اثاثہ تھا۔ کوشش ان کی یہ ہی ہوتی کہ کسی نہ کسی طریقہ سے مالی بچت ہو، بجلی کا بلب بھی زیادہ روشن نہیں کرتے تاکہ زیادہ بل نہ آئے۔
ان کا ایک بیٹا تھا جس کا نام جلال تھا۔ اس نے انجینئرنگ کا ڈپلومہ کر رکھا تھا۔ یہ بیٹا انجینئر ہوگیا۔ دریائے جمنا کے قریب مسلمانوں نے ایک آبادی قائم کرلی ہے۔
اس جگہ دریا کا حصہ خشک ہوگیا۔ وہاں پر لوگ مکان بنا رہے ہیں۔ ان کا لڑکا بھی وہیں مکان بنا رہا تھا۔ میں اس کا مکان دیکھنے چلا گیا۔
اس نے دروازہ کھولتے ہی دیوار بنائی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ بیٹا جلال یہ دیوار ذرا پیچھے بنوانی تھی۔ یہاں گاڑی کھڑے ہونے کی جگہ بن جاتی۔ جلال نے تعجب سے کہا کہ انکل ہمارے پاس کار کہاں ہوگی۔ غور فرمائیں ہندوستان کا پڑھا لکھا لڑکا مسلمان اقتصادی پستی کی وجہ سے کار خریدنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ پاکستان جس میں ہم رہتے ہیں، لوگ مکان بنانے سے پہلے گاڑی کھڑی کرنے کا سوچتے ہیں۔
دہلی ہی میں مولانا ابوالکلام آزاد میڈیکل کالج گیا۔ میں نے ان کی تصویر کالج کے دفتر میں نہ دیکھی جو ضروری تھی۔ وہاں پر تربیت حاصل کرنے والے ڈاکٹروں سے ملاقات ہوئی۔ ان کا کام کرنے کا ڈھنگ دیکھا۔ ان کی تعلیم میں دلچسپی اور انتظامی امور کا جائزہ لیا۔ مجھے یہ تعجب تھا کہ کوئی مسلمان لڑکا ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرتے نہ ملا اور نہ ہی کوئی مسلمان پروفیسر میڈیکل کالج میں تھا۔
ہمیں دہلی کے پاس سہارنپور جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم وہاں پہنچے سائیکل رکشہ والوں نے گھیر لیا۔ مسلمان چھوٹا موٹا کام کاج کرتے ہوئے نظر آئے۔ کوئی لکڑی کا کام کر رہا ہے، سبزی بیچ رہا ہے۔
سائیکل مرمت کا کام کر رہا ہے۔ پان بیڑی کی دکان ہے۔ گھریلو صنعت کا چھوٹا سا کام اور سائیکل رکشہ چلا کر اپنا پیٹ پال رہا ہے۔ یہاں ہم نے مسلمانوں کے لیے ایک ہائی سکول دیکھا تھا جو بعد میں کالج بن گیا۔ وہاں گئے پرنسپل سے ملاقات ہوئی، میں نے پوچھا کہ یہاں کتنے مسلمان بچے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ مسلمان بچے چھ سات کلاس پڑھ سکتے ہیں۔
آٹھ نو میں تو ایک دو بچے رہ جاتے ہیں اور دسویں جماعت تک اکا دکا بچ رہتا ہے۔ اس اسلامیہ کالج میں ہندو لڑکے پڑھتے ہیں۔ تصویریں ساری ہندو رہنماؤں کی تھیں۔
قائد اعظم نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ اگر مسلمانوں کو علیحدہ ملک نہ ملا تو متحدہ ہندوستان میں ہندو ہمیشہ مسلمانوں کو دبا کر رکھیں گے اور مسلمان مغلوب ہوجائیں گے۔ قائد اعظم چاہتے تھے کہ مسلمان کا اپنا ملک ہو، جس میں ساہو کار بنیا قرضے دینے والے نہ ہوں۔ ان کے ساتھ ظلم و نا انصافی نہ ہو اور جس طرح ہندو مسلمانوں کی زمینیں، جائیدادیں ہتھیا لیتے تھے، اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
یہ ہندؤوں کے وہ تیر تھے جس نے مسلمانوں کے بدن میں اقلیت ہونے کا زہر پیدا کیا، جس سے وہ کمزور ہوتے گئے۔ ہندو بہت گہرا ہے اور وہ مسلمان کی جائیداد، زمینیں قرق کرلینا چاہتا تھا۔ یہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور دوسرے رفقاء کا احسان ہے جنہوں نے علیحدہ وطن کے لیے جدوجہد کی اور ہندوؤں کی مخالفت کی جس سے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن پاکستان وجود میں آیا۔ جہاں وہ مکمل آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔